ویٹی کن سٹی سے دسمبر 19 کی خبر ہے کہ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں دہشت گردی کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی افواج کے ایک اسنائپر نے دو خواتین کو بیک وقت قتل کیا، قتل ہونے والی خاتون کا نام ناہیدہ خلیل انتون اور بیٹی کا نام ثمر انتون ہے۔ پوپ فرانسس نے اسرائیلی فوج کی طرف سے چرچ کے احاطے میں پناہ لینے والی دو مسیحی خواتین کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہفتہ وار دعائیہ تقریب میں شرکت کرنے والی ماں بیٹی کو سفاکیت کے ساتھ قتل کردیا گیا ہے، 7 دیگر افراد کو اس وقت گولی مار کر زخمی کر دیا گیا جب وہ دوسروں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
محترم پوپ صاحب!
اطلاعاً عرض ہے کہ اسرائیل پچھتر سال سے عیسائی ممالک کی سرپرستی اور ’’شرپرستی‘‘ میں مسلمانوں کی مساجد اور اللہ کے حضور سجدہ ریز مسلمان بچوں، عورتوں، بزرگوں کو بے دردی سے بموں، میزائلوں اور بندوقوں سے قتل کر رہا ہے۔ مزید عرض ہے کہ دنیا کے امن کا دشمن اسرائیل صرف ایک چرچ کی دو بے گناہ عورتوں کو نہیں، لاکھوں نہتے فلسطینی مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے اور ان کے گھر اسپتال، پناہ گزین کیمپ، کھیت، فصلیں، باغات اور بستیاں امریکی اسلحے، گولہ بارود، بموں اورمیزائلوں سے کھنڈر بنا رہا ہے۔ دو بے گناہ مسیحی خواتین کے ناحق قتل پر اسرائیلی دہشت گردی پر احتجاج کرنے والے جناب پوپ صاحب!
دہشت گرد اسرائیل حالیہ ستر روزہ حماس اسرائیل جنگ میں بیس ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی بزرگوں، عورتوں، دودھ پیتے بچوں، امدادی کارکنوں، ڈاکٹروں، نرسوں، اساتذہ، طلبہ اور صحافیوں کو قتل کرچکا ہے اور روزانہ قتل عام کر رہا ہے۔ جناب پوپ! چرچ پر حملہ اور دو بے گناہ مسیحی خواتین کا قتل یقینا انسانیت کے خلاف اسرائیل کا بڑا جرم ہے۔ عرض یہ ہے کہ عیسائی ریاستوں کی سرپرستی میں ستر سال میں اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے لاکھوں فلسطینی مسلمان بھی انسان ہیں۔
پوپ صاحب! آپ نے بجا فرمایا ہے کہ ’’غزہ سے انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ خبریں مل رہی ہیں، نہتے شہری بم باری اور فائرنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور یہ ہولی فیملی پیرش کمپلیکس کے اندر بھی ہوا، جہاں کوئی دہشت گرد نہیں ہے، بلکہ خاندان، بچے، بیمار یا معذور افراد، راہبائیں ہیں، کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ جنگ ہے، یہ دہشت گردی ہے‘‘۔ اس سلسلے میں یہ بھی عرض ہے کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کی نبوت کے منکر صہیونیوں کے قبضہ ملک اسرائیل کی اس انسان دشمنی اور بدترین دہشت گردی کے پشت پناہ مسیحی عوام تو نہیں، مگر امریکا اور یورپ کے مسیحی حکمران ضرور ہیں۔ یہ وہی دہشت گرد ہیں جو مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی دہشت گرد اور اسلام کو دہشت گردی کا مذہب ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے۔
حضرت آپ تو تاریخ سے واقف ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں یا مسلمانوں اور یہودیوں کی چودہ سو سالہ جنگی تاریخ کی کوئی ایک جنگ بتا دیں جس میں کسی مسلمان فوج نے دوسرے مذاہب کے بچوں، عورتوں، بزرگوں، مریضوں کو قتل کیا ہو! بتا دیں کوئی ایک مثال کہ وحدانیت کے قائل شرک کے مخالف مسلمانوں یا ان کی افواج نے ان کی عبادت گاہیں گرائی ہوں یاکسی کو پوجا پرستش سے روکا ہو، شفا خانے ڈھائے ہوں، یا مریضوں کو قتل کیا ہو، درس گاہیں تباہ کی ہوں یا طالب علموں میں موت بانٹی ہو! کھیت کھلیان جلائے ہوں یا کسانوں کو مارا ہو۔
حضرت پوپ! صرف بیان، مذمت اور اظہار افسوس نہیں، آج کی دنیا کے سب سے بڑے مذہب کے سب سے موثر رہنما و پیشوا ہونے کے ناتے فلسطین کے ان انسانوں کے لیے بھی موثر اور جاندار آواز اٹھائیں جو عقیدہ تو آپ سے مختلف رکھتے ہیں لیکن آپ کے اور مسیحیوں کے نبی عیسیٰؑ کو نبی مانے بغیر ان کا محمدؐ پر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے آج ظلم کے خلاف بلا تفریق مذیب آواز نہ اٹھائی تو جب مسیحؑ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو یہ بے گناہ مسلمان ان سے آپ کی شکایت لگائیں گے!
مجھے علم ہے کہ آپ کا مذہب بھی جنگ سے لا تعلق عام لوگوں کے قتل، کھیتوں اور باغات کو جلانے، اور رہائش گاہوں اور عبادت گاہوں کو گرانے یا اجاڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر آپ کے مذہب کے مترفین حکمرانوں کو آپ اپنے مذہب کی ان تعلیمات پر عمل کا درس کیوں نہیں دیتے!
کہہ دو اے اہل کتاب! تم ہم میں کون سا عیب پاتے ہو اس کے سوا کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہمارے پاس بھیجا گیا ہے اور اس پر بھی جو پہلے بھیجا جا چکا ہے، اور بات یہ ہے کہ تم میں اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ (المائد: 59)