پاکستان انڈونیشیا سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعلقات

657

پاکستان اور انڈونیشیا دو برادر، دوست ممالک ہیں جن کے تعلقات نہایت مضبوط، گہرے اور تاریخی ہیں۔ دونوں ممالک اسلامی جذبات کے گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک دنیا میں امن، یکجہتی عالمی بھائی چارے، برداشت اور باہمی تعاون کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ، اسلامی تنظیم برائے تعاون کے فعال رکن ہیں اور ان پلیٹ فارمز سے امت مسلمہ کے لیے نہایت اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات آزادی سے قبل مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگئے تھے جب برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم قائد محمد علی جناح نے انڈونیشیا کی آزادی کی بھرپور حمایت کی اور برصغیر کے مسلمانوں نے انڈونیشیا کی آزادی میں عملی حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ اس عظیم مقصد کے لیے پیش کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے انڈونیشیا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستانی شہداء وہیں مدفون ہیں جبکہ غازیوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے انڈونیشیا میں ہی پناہ لی اور وہیں مقیم ہوگئے۔

انڈونیشیا دنیا کا چوتھا بڑا اور سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور یہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان واقع ہے جو 70 ہزار سے زائد جزائر پر مبنی ہے۔ اس کی آبادی 27 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے چونتیس صوبے ہیں۔ اس کا دارالحکومت جکارتہ ہے جو جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ انڈونیشیا تیل، قدرتی گیس، تانبا اور سونے جیسے قدرتی اور قیمتی اشیاء سے قیمتی اشیاء سے مالا مال ملک ہے۔ انڈونیشیا آسیان (ASEAN) ممالک کا بانی رکن ہے۔ انڈونیشیا 1950ء سے اقوام متحدہ کا فعال رکن ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم برائے تعاون کا بانی رکن ہے۔ اس نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔

انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا ملک اور دنیا کے امیر ترین ممالک G20 کا بھی رکن ہے۔ یہ دنیا کی 16ویں بڑی معاشی قوت ہے۔ 2010ء میں بالی جزیرے نے دنیا کے بہترین جزیرے کا اعزاز حاصل کیا۔ بی بی سی ٹریول 2011ء کے مطابق بالی دنیا کا بہترین جزیرہ ہے۔

اقتصادیات
آبادی: 27 کروڑ 90 لاکھ (2023)
جی ڈی پی (نامنل) 2023ء: ایک ہزار 420 ارب ڈالر
جی ڈی پی فی کس 2023ء (نامنل): 5,108 ڈالر
جی ڈی پی (پی پی پی) 2023ء: 4 ہزار 3 سو 90 ارب ڈالر
جی ڈی پی فی کس (پی پی پی) 2023ء: 15 ہزار 8 سو 35 ڈالر
جی ڈی پی شعبہ جاتی تقسیم:
زراعت: 13.7 فی صد
صنعت: 41 فی صد
خدمات: 45.4 فی صد
برآمدات ارب ڈالر (2022ء): 291 ارب ڈالر

اہم برآمداتی اشیاء: پام آئل، اسٹیل، دھاتیں، مشینری، صنعتی آلات، کیمیکل، ایل، این جی، ٹیکسٹائل
برآمداتی شراکت کار: چین 23.3 فی صد، آسیان 19 فی صد، امریکا 11.75 فی صد، یورپی یونین 8.16 فی صد، جاپان 7.70 فی صد
درآمدات (2022ء): 237 ارب ڈالر
درآمداتی اشیاء: مشینری، صنعتی آلات، اسٹیل، الیکٹرونک اشیاء

درآمداتی شراکت کار ممالک: چین 32.66 فی صد، آسیان 17.17 فی صد، جاپان 8.56 فی صد، یورپی یونین 6.43 فی صد، آسٹریلیا 4.96 فی صد، بھارت3.97 فی صد
پاکستان اور انڈونیشیا کا تجارتی حجم 4 ارب 37 کروڑ ڈالر ہے۔ توقع ہے آئندہ چند سال میں بڑھ کر 6 ارب ڈالر پر جائے گا۔ پاکستان کی برآمدات بہت کم یعنی صرف 17 کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 4 ارب 20 کروڑ ڈالر ہیں اس لیے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان سرکاری وفود اور دائمی عہدیداروں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پاکستان اور انڈانیشیا کا تجارتی حجم 2010ء میں صرف 70 کروڑ تھا جو 18-2017ء میں 2 ارب 84 کروڑ ہوگیا جو 300 فی صد کا اضافہ ہے۔ 21-2020ء میں بڑھ کر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگیا۔ پاکستان انڈونیشیا کو ٹیکسٹائل، سبزیاں، پھل بالخصوص موسمیاں برآمد کرتا ہے جبکہ انڈونیشیا سے بڑی مقدار میں پام آئل درآمد کرتا ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں بہتر توازن کی ضرورت اور انڈونیشیا کے لیے پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی سنجیدہ ضرورت ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ترجیحی تجارت معاہدہ پر 3 فروری 2012ء دستخط ہوئے جبکہ ستمبر 2013ء میں اس معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ انڈونیشیا، پاکستان معاہدہ 223 ٹیرف لائن کی پیشکش کرتا ہے جبکہ 103 اشیاء پر ٹیکس صرف زیرو ہے۔ ترجیحی تجارتی معاہدے میں صفر شرح پر کینو، موسمیاں، دیگر اشیاء میں تازہ پھل، گارمنٹس، کاٹن فیبرک، پنکھے، چمڑے کا سامان شامل ہیں۔ پاکستانی آموں کی برآمدات کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔