تیسری قسط
اس کے بعد جب جنرل ایوب خان نے 1964 میں صدارتی الیکشن کا اعلان کیا تو محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ تو سارے بنگالیوں کی بڑی اکثریت، باچا خان، ولی خان، خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل یہ سارے لوگ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوگئے اس میں مولانا مودودی بھی سمیت دیگر بہت سے لوگ بھی شامل تھے۔ تو ایوب خان نے کیا کیا؟ یہ تو بی ڈی سسٹم تھا یعنی بیسک ڈیموکریسی کا سسٹم تھا تو ایوب خان نے دیکھا کہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلا دیش ہے اس کی آبادی زیادہ ہے تو وہاں پر ووٹ زیادہ ہیں اور وہاں پر فاطمہ جناح کی مقبولیت بھی زیادہ ہے تو وہاں پر میں کوئی رخنہ ڈالتا ہوں۔ تو ایک نیشنل عوامی پارٹی کے بہت بزرگ سیاستدان تھے مولانا بھاشانی تو ایوب خان صاحب نے مولانا بھاشانی کو پیسے دے کر خریدا اور انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے بجائے ایوب خان کو سپورٹ کردیا۔ اب اس کا ثبوت پیش کردوں جو کافی زیادہ ہیں مگر میں ایک پیش کردیتا ہوں۔
یہ کتاب ہے میاں محمود علی قصوری صاحب جو اس وقت نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی میں تھے اور یہ خورشید قصوری صاحب کے والد ہیں یہ ان کی بائیوگرافی لکھی ہے عبداللہ ملک صاحب نے یہ دراصل قصوری صاحب کی یادداشتیں ہیں جو عبداللہ ملک صاحب نے لکھی ہیں اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ جب ہمیں پتا چلا کہ مولانا بھاشانی نے پیسے کھالیے ہیں تو ہم کنفرم کرنے کے لیے ادھر لاہور سے ڈھاکہ پہنچے اور بھاشانی صاحب ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ان کے گائوں پہنچ گئے اور وہاں جاکر ان سے پوچھا کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ آپ نے پیسے کھائے ہیں۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ بھاشانی صاحب نے قصوری صاحب کو جواب دیا کہ میں نے چائنا کہ وزیر اعظم چوئن لائی کی درخواست پر ایوب خان کی الیکشن میں مدد کی اور اس میں فاطمہ جناح کے بجائے ایوب خان کی حمایت کی لیکن ہاں یہ بھی مان لیا کہ کچھ پیسے وغیرہ بھی لڑکا لوگ کھا گئے۔ یعنی نوجوان کھا گئے۔ ان تمام باتوں کے باقاعدہ شواہد موجود ہیں لیکن بتانا یہی مقصود ہے کہ ایوب خان صاحب نے پہلے تو فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ساتھ اور بھاشانی کو پیسے کھلا کر الیکشن میں شکست دی ایوب خان جیت گیا اور پاکستان ہار گیا اور یہ بریکنگ پوائنٹ تھا کہ جب شیخ مجیب الرحمن وہ چیف پولنگ ایجنٹ تھا فاطمہ جناح کا ڈھاکہ میں لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ تو ایوب خان نے بھاشانی کو پیسے کھلا کر دھاندلی کی اور قائد اعظم کی بہن کو بھی ہرا دیا تو وہاں سے پھر ان کی ڈس اپائنمنٹ شروع ہوئی اور پھر وہ سکس پوائنٹ پر چلے گئے اور انہوں نے چھے نکات پیش کیے اور انہوں نے کہا کہ ہم ان چھے نکات جن کا مقصد صوبائی خود مختاری کا حصول تھا۔ ان کی منظوری کی شرط لگادی اور کہا کہ ورنہ ہم پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس پر ہمارے بزرگ صحافی ہیں الطاف حسین قریشی صاحب انہوں نے مشرقی پاکستان پر بہت لکھا ہے انہوں نے اس وقت ایک انٹرویو کیا 1969 کی بات ہے ان کی ایک بہت ہی ضخیم کتاب ہے مشرقی پاکستان ایک ٹوٹا ہوا تارا اس میں ان کے بہت سے اہم لوگوں سے انٹرویوز ہیں اور کالم ہیں۔ اس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ میں نے شیخ مجیب سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں؟ شیخ مجیب نے کیا جواب دیا کہ آپ خود ہی سوچیں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ہماری آبادی 56 فی صد ہے مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کرسکتا ہے مگر ہم نہیں۔ پھر انہوں نے قدرے غضب آلود لہجے میں کہا اگر وہ حصہ علیحدہ ہونا چاہتا ہے تو ہوجائے ہم علیحدہ نہیں ہوں گے۔ وہی بات ہے جو رمیز الدین نے جسٹس منیر کو کہی تھی اور اس میں شیخ مجیب الرحمن نے مطالبہ کیا کہ 1956 کا آئین اگر بحال کردیا جائے تو ہم پاکستان کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہیں۔
ایوب خان کے 1962 کے آئین کو نہیں مانتے تھے وہ کہتے تھے کہ جو 1956 کا پہلا آئین تھا یا جو پارلیمانی آئین تھا وہ بحال کرو تو ہم پھر پاکستان کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہیں۔ ان تمام مطالبات کے باوجود انہوں نے 1970 کے الیکشن میں حصہ لیا۔ اس الیکشن کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 1970 کے الیکشن کو پاکستان کے میں بعض حلقے فری اینڈ فیئر الیکشن قرار دیتے ہیں جو بالکل جھوٹ ہے کوئی فیئر اینڈ فری الیکشن نہیں تھا اس الیکشن میں جنرل یحییٰ خان نے میجر جنرل غلام عمر کے ذریعے کچھ سیاسی جماعتیں جو اس وقت کی مارشل لا حکومت کے ساتھ جن کا گٹھ جوڑ تھا ان میں پیسے تقسیم کیے۔ ایک تو ثبوت ہے سفیر ارشد سمیع خان صاحب جو جنرل یحییٰ خان کے اے ڈی سی تھے ان کی ایک کتاب ہے Three presidents and an aide اس کتاب میں وہ خود چشم دید گواہ ہیں۔ ان کی موجودگی میں جنرل یحییٰ خان نے جنرل عمر سے کہا کہ نیشنل اسمبلی کے الیکشن میں عوامی لیگ کو بہت سیٹیں مل رہی ہیں لہٰذا تم صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں دھاندلی کرو اور ساتھ پوچھا
What become of all that financing of Qayum Khan, Saboor Khan and Bhashani?
کہ ان پیسوں کا کیا ہوا جو تم نے بانٹے تھے۔
بھاشانی نے 1970 کے الیکشن میں بھی پیسے کھالیے۔ 1956 کے صدارتی الیکشن میں جنرل ایوب خان سے پیسے کھائے اور 1970کے الیکشن میں جنرل یحییٰ خان سے پیسے کھالیے اور پھر ایک سابقہ ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں بریگیڈیئر اے آر صدیقی صاحب انہوں نے جنرل یحییٰ خان پر ایک کتاب لکھی ہےThe Rise and Fall of a Soldier 1947 to 1971 یہ کتاب آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بھی یہ لکھا ہے کہ عوامی لیگ کے بارے میں پیش گوئی تھی کہ اسے ساٹھ فی صد نشستیں مل جائیں گی لیکن وہ اس سے بھی زیادہ سیٹیں لے گئی۔ یعنی دو کروڑ روپے عوامی لیگ کے مخالفین کو لیفٹیننٹ کرنل ایس ڈی احمد ڈھاکہ بیسٹ مارشل لا آفیسر اس نے تقسیم کیے۔ اس زمانے کے دو کروڑ روپے ایسٹ پاکستان جو آج کا بنگلا دیش ہے وہاں پر تقسیم کیے گئے عوامی لیگ کے خلاف دھاندلی کرنے کے لیے یہ الیکشن فیئر اینڈ فری بالکل نہیں تھا۔ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل آصف نواز کے بھائی ہیں شجاع نواز صاحب کی ایک کتاب ہے Crossed Swords جو بڑی مشہور کتاب ہے اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ جو اعدد و شمار میں یحییٰ خان سے غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ عوامی لیگ کو 46 سے زیادہ سیٹیں نہیں ملیں گی 167 میں سے اور پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ 30 سیٹیں ملیں گی 144 میں سے۔ 167 سیٹیں ایسٹ پاکستان کی تھی اور 144 سیٹیں ویسٹ پاکستان کی تو ملٹری انٹیلی جنس تھی اس نے عوامی لیگ کو ایسٹ پاکستان میں اور پیپلزپارٹی کو ویسٹ پاکستان میں انڈر اسٹی میٹ کیا اور اپنی کتاب کے صفحہ 260 پر لکھا ہے کہ شیخ مجیب نے ویسٹ پاکستان میں میاں ممتاز دولتانہ کی کنونشن مسلم لیگ کے ساتھ بھی الائنس بنانے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ میں تمہیں پچیس تیس سیٹیں ایسٹ پاکستان میں دے دیتا ہوں اور تم ویسٹ پاکستان میں ہمارے بندوں کو ایڈجسٹ کرو تو شیخ مجیب یونائیٹڈ پاکستان کا پرائم منسٹر بننا چاہتے تھے لیکن یہ منصوبہ آگے چل نہیں سکا۔
الیکشن ہوا جس میں شیخ مجیب کو اکثریت مل گئی اس کو ٹرانسفرآف پاور یعنی اختیارات کی منتقلی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں حالات خراب ہوئے۔ عوامی لیگ کے موقف میں سختی آگئی اور پھر بجائے اس کہ آپ ان کو اختیارات کی منتقلی کرتے۔ اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان ہوا تو پھر یہ کہا گیا کہ اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا اور اس کے بعد جب احتجاج شروع ہوا تو اسے ختم کرنے کے لیے فوج نے ملٹر ی آپریشن شروع کردیا۔ اب جب ملٹری آپریشن تھا تو اس کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان صاحب کررہے تھے جو ایسٹ پاکستان میں پاکستانی فوج کو کمانڈ کررہے تھے انہوں نے بھی اس کی مخالفت کی، جب انہوں نے مخالفت کی تو ان سے استعفا لے لیا گیا۔ ان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو بھیجا گیا اس نے آپریشن کیا۔ ٹکا خان بھی ناکام ہوگئے تو ان کی جگہ پھر جنرل نیازی صاحب کو بھیجا گیا۔ اب یہ تو ایک عام سا تاثر ہے کہ سب سے پہلے عوامی لیگ نے پاکستان کے خلاف بغاوت کی۔ جب آپ نے اس کو پاور ٹرانسفر نہیں کی تو انہوں نے بغاوت تو کرنی ہی تھی لیکن مارچ 1971 میں جو پہلی فوجی بغاوت تھی ایسٹ پاکستان رائفلز کے یہ میجر جنرل ضیا الرحمان صاحب تھے انہوں نے کہا جو بعد میں بنگلا دیش کے صدر بن گئے اور پھر ان کی بیگم خالدہ ضیاء وہ پاکستان کی بہت بڑی دوست بن گئیں اور پاکستان میں بہت سے لوگ ان کو اپنا دوست سمجھتے ہیں ان کے بارے میں جنرل کے ایم عارف صاحب نے اپنی کتاب خاکی سائے میں لکھا ہے کہ جنرل ضیاء الرحمان صاحب نے سب سے پہلے بغاوت کی اور انہوں نے پاکستانی فوج کے چند افسران کو بڑی بے دردی سے شہید کردیا تھا اور اس پر ہمیں بڑا دکھ تھا لیکن بعد میں وہ پاکستان کے دوست بن گئے۔ شیخ مجیب الرحمن نے تو پاکستانی فوج کے خلاف بغاوت بہت بعد میں کی لیکن جس بندے سے سب سے پہلے بغاوت کی اس کا پاکستان میں نام ہی کوئی نہیں لیتا جس نے پاکستانی فوج کے افسران کو باقاعدہ قتل کیا اس نے چٹاگانگ میں ریڈیوپاکستان کے اسٹیشن پر قبضہ کرکے وہاں سے آزادی کا اعلان کردیا تھایہ ضیاء الرحمان تھے جو جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان کے بہت بڑے دوست بن گئے۔ میں آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ جو سقوطِ ڈھاکہ ہے اس کی اصل وجوہات کیا ہیں۔