انصار عباسی صاحب کی نواز شریف سے وابستہ توقعات، اگر صرف ایک واقعہ کے حوالے سے دیکھیں تو نواز شریف کی دیدہ دلیری سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ نواز شریف نے دو وعدے مسجد نبوی میں گنبد خضراء کے سائے میں اور روضہ رسول کے قریب سراج الحق سے کیے تھے کہ وہ پاکستان جا کر سودی نظام کا خاتمہ کریں گے اور میڈیا پر اسلام مخالف مواد کو روکیں گے۔ سراج الحق نے مدینے سے واپسی کے بعد سودی نظام کے خاتمے کے لیے رٹ دائر کی تو نواز شریف نے ان کے وکلا کے مقابلے میں سودی نظام کے تحفظ کے لیے اپنے وکلا کی ٹیم لا کر مقابلہ شروع کیا، اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بہت لرزا دینے والا اقدام تھا جس کی آج بھی جتنی بھی مذمت کی جائے، جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے کیے گئے وعدہ کو وفا نہیں کرسکا، بھلا وہ عوام سے کیا وفاداری کر سکے گا؟۔ ایسے لوگوں کو چوتھی مرتبہ حکمران مسلط کرنے اور کرانے کی کاوشیں، کیا اپنی اپنی عاقبت برباد کر دینے کے مترادف نہیں؟۔ احکام الٰہی اور احادیث میں سود، عریانی و فحاشی کے انذار کے بعد کون ایسا بد بخت ہو گا جو خطوط شیطان کی پیروی کرنے والے کا ہمدرد بنے؟۔
ہم سودی معاشی نظام، فحاشی و عریانی، مغربی اقدار، انصاف سے مبرا عدالتی نظام، خوف خدا سے عاری انتظامیہ، جذبہ جہاد سے عاری عسکری رویوں کی موجودگی میں ثقافت میں اور انفرا اسٹرکچر میں ایک نیا امریکا یا نیا سعودی عرب تو بن سکتے ہیں لیکن ریاست مدینہ کے مخالف سمت سفر کرتے ہوئے کبھی بھی ہم ریاست مدینہ نہیں بن سکتے، (ریاست مدینہ، پاکستانی عوام کی اکثریت کی خواہش بھی اور منزل بھی، بلکہ قیام پاکستان کا مقصد بھی ہے)۔ اقوام عالم کی صفوں میں مقام حاصل کرنے کے لیے ترقی اور ایک مہذب معاشرہ میں بدلنے کے لیے مطلوبہ تعلیمی اور تربیتی نظام ناگزیر ہے۔
جماعت اسلامی اس ملک کی وہ جماعت ہے جس نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے اپنی جماعت میں ایک تربیتی نظام کو جاری کیا ہے جس سے اس کے تمام کارکنان کو مربوط اور منظم انداز میں گزارا جاتا ہے، جماعت کے زیر انتظام تعلیمی، تربیتی اور خدمت خلق کے ادارے، مثال کے طور سے الخدمت یا حال ہی میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے لانچ ہونے والا بلا معاوضہ آئی ٹی پروگرام ’’بنو قابل‘‘ ہے جس سے صرف کراچی سمیت، دیگر شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مستفید ہو رہے ہیں بلکہ جو روزگار کے نئے مواقع سے معاشی مسائل میں معاون و مدد گار ہے، اس طرح کے ادارے فعال بھی ہیں اور معاشرہ کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار بھی ادا کر رہے ہیں، جماعت اسلامی نے ادارے نہ صرف قائم کیے ہیں بلکہ ان کے ’’تھنک ٹینک‘‘ ملکی پالیسیوں اور مسائل کے حوالے سے سوچ بچار کرتے ہیں اور گاہے گاہے، سیمنار اور اپنی مطبوعات میں مسائل کے حل کے لیے، ماہرین کی مرتبہ تجاویز کو مناسب فورمز کے ذریعہ عمومی اور حکومتی استفادہ کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں، اسی حوالے سے جماعت اسلامی کی نفاذ شریعت، غربت اور جہالت کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام، سود، فحاشی اور عریانی کے خلاف کاوشیں بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ان کاوشوں کی وجہ سے مجموعی طور سے ملک میں برائیوں، سود اور دیگر خلاف شرع امور کے خلاف ایک فضا بنی ہے، آخر دائرہ حکومت سے باہر ایک جماعت اس کے سوا ایک جمہوری معاشرے میں اور کر بھی کیا سکتی ہے؟ ضرورت ہے کہ اس حوالے سے بھی کبھی کلمہ خیر ادا کیا جائے اور اعتراف کیا جائے۔ جماعت اسلامی کو جہاں بھی اور جب بھی مواقع ملے ہیں اس کی صالحیت اور صلاحیت مسلمہ رہی ہے، ایسی ہی جماعت سے، غربت، کرپشن، سفارش، رشوت، دیگر چیدہ چیدہ معاشرتی برائیوں بشمول سودی نظام کے قلع قمع کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھا کہ یہاں قرآنی احکام کا نفاذ کیا جائے، شریعت کے نفاذ ہی میں ہمارے مسائل کا حل، تعمیر، ترقی اور وہ سب کچھ پنہاں ہے جو ہمارے اجداد کا ورثہ تھا، لیکن ہوا یہ کہ اقتدار پر ایسے عناصر قابض ہو گئے جنہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا، نا اہلی، دین بیزاری اور لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ ان عناصر کی سرکوبی کی جاتی الٹا لفظ سیاست کو ہی مطعون کر دیا گیا۔ لوگوں نے سیاستدانوں کی جھولیاں ووٹوں سے بھریں، انہوں نے اتنی ہی مشاقی سے لوگوں کے خوابوں کو چکنا چور کرنا شروع کیا۔ انبیاء کا طرز سیاست اور ان کے مشن کے پیروں کی سیاست تھی کہ اللہ کے بندوں کو، بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی میں دیا جائے اور سر دست قومی سطح پر، اس دعوت کو لے کر چلنے والی صرف جماعت اسلامی ہی ہے۔ اسی طرز سیاست اور دعوت کی آج کے دور میں جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی، وقت کا تقاضا بھی یہی ہے، آخر ہم اپنے نفس کی بندگی کب چھوڑنے پر آمادہ ہوں گے؟۔ قرآن ہمیں اپنے دل اور عقل کی روشنی میں یا زمانے کے حوالے سے چلنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک اللہ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے احکامات کو جو دل و دماغ سے تسلیم کرنے کے بجائے تاویلات میں پڑتا ہے یہ اسی کے مرضِ منافقت کی واضح علامت ہے۔ کیا اس زمانے میں معیار بدل گیا ہے کہ اسلام کو صرف تعریف کی حد تک تو رکھیں مگر اسے اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات، حکمرانی اور سپہ سالاری کا حق اور فرض ادا کرنے میں لاگو کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کریں، محض اس لیے کہ بظاہر ہمیں مشکلات اور دقت نظر آرہی ہیں؛ کیا نواز شریف اور (ن) لیگ کی سیاست کا کسی بھی درجہ میں اس طرح کا تقابل کیا جا سکتا ہے؟ اگر گزشتہ تین ادوار میں نواز شریف کا طرز حکمرانی معاذ بن جبلؓ جیسا ہوتا یا عمر بن عبد العزیزؒ جیسا رہا ہوتا، تو تو ان کے حوالے سے انصار عباسی صاحب سے ان کے کالم کے ’’بین السطور‘‘ سے بھی آگے بڑھ کر بات کی جاسکتی تھی، لیکن ایک نا اہل اور قرآن وسنت کے مخالف نظام میں مطمئن، تین بار حکمرانی کرنے والا شخص قطعی اس قابل نہیں کہ اس کی حمایت میں اپنی عاقبت برباد کی جائے۔
یہی وہ سوچ کا بنیادی فرق ہے جس نے ہمارا ارتکاز ان ہی امور پر کیا ہے جس کا ذکر انصار عباسی صاحب نے اپنی گفتگو میں رکھا ہے۔ اب تک کے ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں، ذاتی دولت اور بیرون ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ اور ملک کو قلاش کر کے مالیاتی دیوالیہ کی حد تک پہنچانا رہا ہے، ان کی ساری داستان منہ سے شروع ہوتی ہے اور پیٹ پہ آکر رک جاتی ہے۔ انصار عباسی صاحب کے بخوبی علم میں ہوگا کہ نواز شریف امریکی صدور کے سامنے کیا اور کس طرح کی میٹنگز کرتے رہے ہیں اور کس صلاحیت کے حامل ہیں؟ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش ہے اور پس پردہ حکمرانوں نے اپنے مفاد میں اس چاہت کو پورا کرنے کے لیے اپنے منصوبہ عمل کو ’’لانچ‘‘ کر دیا ہے۔ ایک بڑے مخالف عوامی رد عمل کے امکانات کو عالم وجود میں آنے سے پیش تر اپنی پالیسی کے حق میں فضا سازی کی کوششیں جاری ہیں تو اس کی وجہ بھی ہے کہ اب امام احمد بن حنبلؒ جیسے لوگ موجود نہیں ہیں، جو پس پردہ حکمرانوں کے سامنے ان آزمائے ہوئے لوگوں کے حوالے سے، کلمہ حق ادا کرنے کی تاب رکھ سکیں۔
مالی دا کم پانی دینا، بَھر بَھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھَل پھْل لانا، لاوے نہ لاوے