انصار عباسی کی نواز شریف سے توقعات (حصہ اوّل)

713

معروف صحافی محترم انصار عباسی نے معاصر جریدہ روزنامہ جنگ کی اشاعت ۱۱ دسمبر میں اپنے کالم ’’میاں صاحب! آپ کو کیوں لایا گیا‘‘ میں بین السطور، ایک سیاسی مثلث (ن)لیگ، اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی، تشکیل دی ہے۔ انصار عباسی صاحب نے اپنے کالم میں نواز شریف ہی سے مرکزی گفتگو رکھی ہے اور مشوروں سے بھی نوازا ہے، یہ واقعتا ہمدردی پر مبنی ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ سب ذاتی طور سے نواز شریف کے گوش گزار کیا جاتا یا ان تک پہنچایا جاتا۔ کالم چھپ جانے کے بعد معاملہ مختلف ہے اور حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انصار عباسی کے کالم کے وہ چیدہ چیدہ حصے جوں کے توں یہاں رکھ دیے جائیں جو ان کے کالم کا مطمح نظر ہے۔

’’نواز شریف ایک بات پھر خطرناک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اْن سے اپنا غصہ نہیں سنبھل رہا اور وہ اب بھی اپنی گزشتہ تین حکومتوں کے خاتمہ کا احتساب چاہتے ہیں تو آگے رولا ہی رولا ہو گا۔ جبکہ میاں صاحب کی واپسی کے لیے سہولت کاری نہ ہی پرانے کٹے کھولنے اور پرانی لڑائیاں لڑنے کے لیے کی گئی اور نہ اْن کے لیے آئندہ انتخابات کا رستہ اس لیے ہموار کیا جا رہا ہے کہ ہم اْس تاریخ سے ہی نہ نکل سکیں جس نے فوج اور سول کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے ملک اور عوام کی حالت ہی خراب کر دی‘‘۔

’’ڈیفالٹ سے ہم بمشکل بچے لیکن اگر ملک کو اس خطرے سے بچانا ہے اور معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو پھر میاں صاحب کو واقعی اپنا غصہ، اپنے ذاتی معاملات وغیرہ کو بھلانا پڑے گا‘‘۔

’’شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کر معیشت کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ کی بنیاد رکھ دی تھی، جس کا مقصد سب کو مل کر، فوکس ہو کر پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانا ہے تاکہ ہمارا انحصار بیرونی معاشی اداروں اور دوسری قوتوں پرسے ختم ہو سکے اور ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں‘‘۔

’’ان کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ فوج کی مدد سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لیے دن رات کام کریں، گورننس کی بہتری پر توجہ دیں، مہنگائی پر قابو پائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو اپنے بہترین طرز حکومت سے اس طرح مطمئن کریں کہ لوگ جب حکومتی محکموں میں اپنے کام کے لیے جائیں تو اْن کے کام فوری ہوں، بغیر رشوت بغیر سفارش۔ اْنہیں دھکے نہ پڑیں، اْن کا احترام کیا جائے‘‘۔

’’پولیس، تھانے، کچہری، محکمہ مال، افسر شاہی، بجلی و گیس کے محکمے سب کو عوام کی خدمت کے لیے بدل دیں تاکہ ہمارے ہاں بھی عوام کے کام میرٹ کے مطابق Smooth طریقے سے ہوں‘‘۔

’’میاں صاحب جو سپورٹ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مل رہی ہے اْس کو پاکستان اور عوام کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ اپنے غصے پر قابو پائیں اور جو موقع آپ کے لیے پیدا کیا جا رہا ہے اس کو ضائع مت کریں‘‘۔

انصار عباسی صاحب نے اپنے کالم میں عمران خان کے حوالے سے ضمناً لب کْشائی بھی کی ہے لیکن سر دست ہمارا موضوع ان نکات کی طرف ہے جس کے حوالے سے میڈیا کے ذریعہ (ن) لیگ اور شریف برادران کے حالیہ (پی ڈی ایم) اور سابقہ ادوار حکمرانی کے حوالے سے، عوامی مزاحمتی اور ناقابل قبول فضا کی کثافت کو کم کرکے، مزاحمتی رویوں کو بتدریج بے اثر بنا کر قبولیت کے حوالے سے تبدیل کرنا ہے۔ معاشرے میں انتخابات کے ڈھونگ کے نام پر، کچھ لوگوں کو عوام کے سر پر مسلط کرنے کے نا ختم ہونے والے کھیل کا تسلسل پاکستانی عوام کے مزاج کو انقلاب کی طرف لے کر جا رہا ہے، کھلی آنکھ سے دیکھا جائے تو معاشرے میں خصوصاً نوجوان طبقہ میں ایک اشتعال کی کیفیت اور واضح ردعمل موجود ہے، اس طرح عوامی مرضی کے برخلاف نتائج اور مسلط کردہ لوگوں کے لیے قبولیت کی سطح ’’نقطہ ٔ اُبال‘‘ سے تجاوز کر چکی ہے، خدانخواستہ یہ رویے اگر ’’اَن گائڈیڈ میزائل‘‘ میں تبدیل ہو گئے تو پھر وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ اگر انصاف ہی بے راہ روی کی طرف چلا جائے تو ایک مہذب معاشرے میں اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے؟

انصار عباسی صاحب کے تحریر کردہ کالم میں، انہوں نے نواز شریف کو خطرناک قرار دیا ہے، معلوم نہیں انہیں وہ کس لیے اور کس کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں؟، پاکستان، عوام، مقابل قوتوں، اسٹیبلشمنٹ یا خود نواز شریف، اپنی ذات کے لیے؟۔ وہ ان کے بڑھتے ہوئے غصے کا ذکر کرتے ہیں؛ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان اسی لیے معرض وجود میں آیا تھا کہ نواز شریف تین بار کی نا اہل حکمرانی کے بعد چوتھی بار آکر تخت و تاج سنبھال لیں۔ کیا پاکستان میں واقعی اتنا ہی قحط الرجال ہے؛ کہ تین بار کے ناکام اور آزمائے ہوئے شخص کو ہی چوتھی بار اقتدار سونپ دیا جائے؟۔ انصار عباسی صاحب ایک صحافی کی حیثیت سے جب کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری جیسے معاملات کی چھان بین کرتے ہیں تو تہ میں جاکر حقائق طشت از بام کر دیتے ہیں، اس کی مثال مولانا فضل الرحمن اور ان کے قریبی کچھ افراد کے خلاف دستاویزات کے ساتھ وہ ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں پیش ہوئے اور ثبوت دکھائے کہ کس طرح سے اور کتنی زمین مولانا فضل الرحمن اور ہم نواؤں کو الاٹ کی گئی۔ جن ذرائع سے انہوں نے یہ ثبوت فراہم کیے تھے، کیا آج ان ہی ذرائع کے کہنے پر وہ نواز شریف کو متنبہ اور انہیں آنے والے انتخابات میں بظاہر ملنے والے امکانی اقتدار سے محرومی کا منظر نامہ بھی دکھا رہے ہیں؟۔ نواز شریف کی شخصیت، بطور ایک مسلمہ ناکام حکمران، تاریخ میں ثبت ہو چکی ہے۔ ان کی نااہلی، طشت از بام اور اظہر من الشمس ہے۔ ان کے دور میں لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری، کرپشن کے لیے زیادہ تحقیقات کی ضرورت نہیں، بطور نمونہ ان کے آخری دور میں انصار عباسی صاحب کے شعبہ (صحافت) ہی سے تعلق رکھنے والے فرد کی بطور ایم ڈی، پی ٹی وی تقرر، اور مراعات اور نا اہلی کی داستان، اور اس حوالے سے عدالت کا فیصلہ اور دیگر تفصیلات اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔

معاشی مشکلات اور ملک کو خطرے سے نکالنے کو بھی نہ جانے کیوں انصار عباسی نے نواز شریف اور ان کے غصہ اور ذاتی معاملات سے نتھی کر دیا ہے۔ معیشت کی بہتری کا ’’کسی کا بھی‘‘ اور کوئی سا بھی ’’روڈ میپ‘‘، معیشت سے سود کو علٰیحدہ کیے بغیر اور زکواۃ و عشر کے نظام کو لاگو کیے بغیر کم از کم پاکستان کو نہ خود انحصار بنا سکتا ہے اور نہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتا ہے، جب تک کہ ہم اپنے رب کو اس کی کلی اطاعت سے راضی نہ کر لیں، ویسے تو اس نے رزق کا وعدہ اپنی مخلوق کے لیے کیا ہی ہوا ہے۔

انصار عباسی صاحب نے اپنے کالم میں نواز شریف کے حوالے سے جس سنہری موقع، گورننس، سرکاری محکموں کا عوامی خدمت کے حوالے سے ذکر اور توقع کا اظہار کیا ہے، انصار عباسی صاحب سے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ نواز شریف کو پہلے بھی ان اقدامات کے کرنے کے مواقع ملے تھے، لیکن وہ آپ کے نشان کردہ امور کی انجام دہی میں وہ قطعی ناکام رہے تھے۔ اس کے بر خلاف نواز شریف نے اپنے سابقہ ادوار حکومت میں ان ہی موقعوں میں سمت معکوس میں سفر کے حوالے سے ہی شہرت حاصل کی ہے، سر دست یہی کہا جاسکتا ہے اور مشہور قول بھی ہے ’’آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے‘‘۔