دسمبر 1970 کے انتخابات کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سقوط ڈھاکہ کی کہانی میں نہیں کیا جاتا لیکن اس واقعہ نے پاک بھارت تعلقات میں جو کبھی بھی بہت اچھے نہیں رہے، ایسی تلخیاں گھولیں جس کا خمیازہ پاکستان 1976 تک بھگتتا رہا۔ 30 جنوری 1971 کو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے تعلق کے دعوے دار دو نوجوان 19 سالہ اشرف اور 17 سالہ ہاشم، گنگا نامی ایک طیارہ جو سرینگر سے جموں کی پرواز پر تھا اغواء کرکے لاہور ائرپورٹ لے آئے۔ اس میں سوار مسافروں اور عملے کے افراد کو چند گھنٹوں میں رہا کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد قومی سیاستدان تھے جنہوں نے لاہور ائر پورٹ پر پہنچ کر اغواء کی اس کارروائی کو سراہا۔ 3 فروری کو اس طیارے کو آگ لگادی گئی۔ 4 فروری 1971 کو بھارت نے پاکستان کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردیں۔ اس پابندی کے بعد مشرقی پاکستان جانے کے لیے سری لنکا کا راستہ اختیار کرنا پڑا جس سے نقل و حرکت کی لاگت اور وقت دونوں میں اضافہ ہوا۔ حالت جنگ میں اس پابندی سے پاکستان کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعہ کی تفصیل پھر کبھی، فی الحال ہم واپس اسمبلی اجلاس کی کوششوں کی طرف آتے ہیں۔
7 مارچ 1971 کے جلسے کے بعد جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان اور ولی خان نے ایک بار پھر حالات کی الجھی ڈور سلجھانے کی کوشش کی لیکن تب تک معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری تاج الدین جو بھارتی ہندو لابی کے زیر اثر تھے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے تھے۔ ہر چند کہ یحییٰ خان نے ڈھاکہ ائرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن کو مستقبل کا وزیراعظم بھی کہہ دیا تھا لیکن ڈھاکہ کی سڑکوں پر پاک فوج اور وفاق پاکستان کے خلاف نعرے گونجتے رہے۔ اس دوران یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ جنرل یحییٰ خان مجیب الرحمن سے اپنی صدارت کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ ڈھاکہ مذاکرات کا محور 6 نکات تھے۔ کبھی خبر آتی کہ چار نکات پر اتفاق ہوگیا ہے تو کبھی پانچ نکات پر اتفاق کی خوشخبری سنائی جاتی۔ کاش 6 نکات پر 1966 میں اس وقت بات کرلی جاتی جب نہ ملک میں ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تھی نہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت بنی تھی۔ اسی دوران عوامی لیگ نے 23 مارچ کو جو یوم قرارداد پاکستان ہے یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کردیا۔ تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، عدالتیں، عدالت عظمیٰ کی ڈھاکہ رجسٹری، بند کرنے کا اعلان کردیا گیا، مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان رقم نہ جانے دینے کا اعلان کیا گیا۔ ڈھاکہ ہی نہیں پورا مشرقی پاکستان سیاہ ہوگیا۔ سرکاری عمارتوں سے پاکستان کا پرچم اتار کر سیاہ کپڑا اور بنگلا دیش کے پرچم لہرا دیے گئے۔ 25 مارچ 71 کو عوامل لیگ غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا تو شیخ مجیب الرحمن گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کردیے گئے۔ 25 مارچ کو ہی ایسٹ پاکستان رائفلز نے اپنے سربراہ میجر جنرل ضیاء الرحمن کی قیادت میں اعلان بغاوت کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان چٹاگانگ پر قبضہ کرکے اعلان آزادی کردیا۔ یہ وہی ضیاء الرحمن ہیں جو بنگلا دیش کے صدر بنے اور پاکستان کے دوست کہلائے لیکن انہوں نے بغاوت کے اعلان سے قبل سیکڑوں پاکستانی فوجیوں کو دھوکے سے قتل کیا۔ اس ہفتے میں مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں نہتے بہاریوں، محب وطن بنگالیوں اور افواج پاکستان کے خلاف جگہ جگہ مسلح کارروائیاں کی گئیں۔ چٹاگانگ کی بندرگاہ پر لنگر انداز جہاز ایم وی سوات جو پاک فوج کے لیے بھاری اسلحہ اور درمیانہ ہتھیار لے کر آیا تھا اس سے اتارے جانے والے اسلحہ کے ٹرک لوٹے گئے بعد ازاں مکتی باہنی نے بندرگاہ پر موجود جہاز سے سارا اسلحہ لوٹ لیا۔ چاٹگام اور رنگ پور میں جھڑپوں میں 64 افراد مارے گئے۔ عوامی لیگ نے ایک منظم مہم چلا کر بنگالیوں کو سرحدی علاقوں سے بھارت کی طرف منتقل ہو کر پناہ گزین ہونے پر آمادہ کیا۔ یہ پناہ گزیں جن کیمپوں میں ٹھیرائے گئے انہیں ’’مجیب نگر‘‘ کا نام دیا گیا۔
4 اپریل1971 کو وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارتی لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اپنی مشرقی سرحدوں پر ہونے والے واقعات جانوں کے زیاں اور بنگالی مہاجرین کے سیلاب پر خاموش تماشائی بنا نہیں رہ سکتا۔ 17 اپریل 1971 کو مجیب نگر میں بنگلا دیش کی جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ کلکتہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت پر قبضہ کرکے جلا وطن بنگلا دیشی حکومت کے دفاتر قائم کردیے گئے۔ پاکستان کے مطالبے کے باوجود انڈیا نے پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت خالی کرانے سے انکار کردیا۔
اسی دوران روس اور انڈیا کے درمیان ایک دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت اسلحہ کی فروخت سے بڑھ کر تیکنیکی تعاون کے حوالے سے طے کیا گیا کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
10 نومبر 1971 کو انڈیا نے مشرقی محاذ پر باقاعدہ حملہ کرکے مکتی باہنی کو پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا۔
6 دسمبر 1971 کو انڈیا نے بنگلا دیش کی جلاوطن حکومت کو تسلیم کرلیا، حالانکہ اس وقت تک مکتی باہنی مشرقی پاکستان کی ایک انچ زمین پر بھی قابض نہیں تھی۔ پاکستان نے احتجاجاً انڈیا سے سفارتی تعلقات توڑ لیے۔ 7 دسمبر کو بھارتی افواج نے جیسور برہمن باڑی پر پاکستانی فوج کی دفاعی لائن تباہ کرکے جنرل نیازی کی حکمت عملی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
جنرل یحییٰ خان نے سینئر بنگالی رہنما نورالامین کو وزیراعظم پاکستان نامزد کیا ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نامزد کیے گئے۔ اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کا کھیل شروع ہوگیا جنگ بندی کی آخری قرارداد جو 15 دسمبر کو پیش کی گئی پولینڈ کی تھی جو 11 کے مقابلے میں 104 ووٹوں سے منظور کی گئی لیکن… بھارت پاکستان کی ایسٹرن کمانڈ کو 15 دسمبر کی شام 5 بجے تک ہتھیار ڈالنے کا نوٹس دے چکا تھا جس میں بمشکل 16 دسمبر صبح دس بجے تک توسیع کی گئی۔ اسلام آباد سے منظوری کے بعد اس مقررہ مدت میں ہتھیار ڈال کر متحدہ پاکستان کی تقسیم کو تسلیم کرلیا گیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا نقصان بہاریوں کو ہوا۔ مارچ 69 سے دسمبر 71 تک یہ بنگالیوں اور پھر مکتی باہنی کا آسان ہدف تھے۔ بنگالیوں کے قتل عام اور عورتوں کی آبروریزی کے ناقابل ِ یقین اعداد و شمار پیش کرنے والے بہاریوں کی جان مال اور عزت آبرو کے نقصانات پر گفتگو کرتے نظر نہیں آتے۔ بنگلا دیش کے کیمپوں میں غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کرنے والے میرے نزدیک کشمیریوں اور فلسطینیوں سے بھی زیادہ مظلوم ہیں جن کے لیے کسی کے پاس حرف دعا بھی نہیں ہے۔