ابراہیمی معاہدہ :
عالمی امریکی جریدے دی ٹائمز نے جب تازہ شمارے میں یہ سرخی لگائی کہ
It’s Time to Scrap the Abraham Accord
تو مجھے بڑی حیر ت ہوئی۔ سوشل میڈیا پر فارورڈ ہوتا یہ مضمون مجھ تک پہنچا تھا۔ دوسری خبر بحرین کی میرے پاس پہلے سے تھی کہ اُس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ پھر پوری صورت حال اور مضمون پر نظر دوڑائی تو سوچا کچھ آگاہی قارئین کو بھی دے دی جائے کہ مغرب کس طرح جھوٹے معاہدوں کا سہارا لیتا ہے ، کیسے عالمی سطح پر سفید جھوٹ بولے جاتے ہیں‘ اس کو سمجھایا جائے۔ ان معاہدوں کے پیچھے بہت بڑی سیاسی بساط کیسے بچھائی جاتی ہے جس کا مقصد اپنے اقتدار و اختیار کو دوام دینا ہوتا ہے۔
اس معاہدے میں ابراہیم کا نام کیوں شامل ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کیوں کہ یہ درحقیقت صرف ایک ’’مذہبی ٹچ‘‘ ہی تھا، یہ بتانے کے لیے کہ ابراہیم علیہ السلام کو ہم سب پیغمبر مانتے ہیں (مگر اس پیغمبر کی نہیں مانتے۔) یہ معاہدہ ایک اور خنجر تھا جو فلسطینی جدوجہد کی پیٹھ میں امریکہ نے عربوں کے ہاتھ سے گھونپا۔ اس معاہدے کو اُن ممالک نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی سے زیادہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے خاتمے اور الحاق کی ترغیب کا ذریعہ قرار دیا تھا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ مسلم ممالک مزید اپنے مؤقف سے پیچھے ہوتے چلے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل15ستمبر 2020 کے تاریخی دن وائٹ ہاؤس میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے تاریخی معاہدوں کی تقریب میں شرکت کی۔ (حوالہ، سی این این)
معاہدے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تینوں ملکوں کے دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کے نئے مواقع کھلے۔ خاص طور پر ایران کو خطرے کے طور پر پیش کرکے۔ (اس بات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کو بطور خطرہ پیش کرنا ایک خاص عمل ہے تاکہ اس خوف کے علاج کے طور پر طاقتور ممالک اپنے مفاد حاصل کرسکیں۔) یہی نہیں 2022ء میں اسرائیل میں ایک نیگیو فورم ہوا جس نے مصر کو بھی اس ابراہام معاہدے کے اتحاد میں شامل کیا۔ اس کے بعد اسرائیل سے توانائی، خوراک اور پانی سمیت مشترکہ مفادات پر تعاون کے اضافی امکانات کی پیش کش ہوئی۔ معاہدے کے 2 سال بتاتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے میں تو کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کو بنیاد بنا کر یہ وعدے کیے گئے۔ (بحوالہ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ)
ابراہیمی معاہدے میں ’’نمرود‘‘ کی انٹری بہت باریکی سے ہوئی۔ ویسے تو مقاصد ثابت کر رہے ہیں کہ فلسطینی مسئلہ اب خطے میں اسرائیل کے تعلقات کے لیے رکاوٹ نہیں رہا۔ ایک وقت تھاکہ ناجائز اسرائیل کے معاملے پر تمام عرب ریاستوں کی اوّلین اور بنیادی شرط فلسطینی ریاست ہوتی تھی۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ شرط غائب ہوگئی اور اس کی جگہ علاقائی سلامتی نے لے لی۔ (یہ بالکل ایسا ہے جیسا ہمارے ہاں ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے لگتے تھے۔)
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس میں ’’نمرود‘‘ کون ہے؟ نہیں سمجھے؟ تو دیکھیں! ٹرمپ اور بائیڈن دونوں انتظامیہ نے اس معاہدے کو مضبوط کرنے کے لیے خوب اقدامات کیے۔ عرب امارات کو F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت‘ مغربی صحرائوں میں مراکش کے غیر قانونی الحاق کو تسلیم کرنا، سوڈان کو نامزد دہشت گرد ریاستوں کی فہرست سے نکال کر 1.5 بلین ڈالر کا قرضہ دینا۔ یہ کم قیمت نہیں تھی۔ 2021 میں، متحدہ عرب امارات، بحرین، اسرائیل اور امریکی بحریہ کی سینٹرل کمانڈ نے بحیرہ احمر میں ’’میری ٹائم سیکیورٹی آپریشنز‘‘ مشقیں کیں جب کہ اسرائیلی ہتھیاروں کے مینو فیکچررز نے بھی عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے کاروبار کو نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔ 2022 میں اسرائیل نے صرف متحدہ عرب امارات اور بحرین کو ریکارڈ 12.6 بلین ڈالر کی دفاعی مصنوعات برآمد کیں۔
وقت نے ثابت کیا کہ اسرائیلی زیادتیوں کو روکنے کے بجائے اس معاہدے نے یکے بعد دیگرے اسرائیلی حکومتوں کو فلسطینیوں کے حقوق کو مزید روندنے کا لائسنس دیا۔ معاہدے کے بعد پہلے سال میں مغربی کنارے میں آباد کاروں کے تشدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ 2022 میں اسرائیل کی تاریخ میں سب سے دائیں بازو کی حکومت کے انتخاب کے بعد، کابینہ کے وزرا نے کھلے عام مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کیا اور بڑے پیمانے پر آباد کاری کی توسیع کا اعلان کیا۔ 7 اکتوبر تک کے سال میں، اسرائیلی فورسز نے پہلے ہی مغربی کنارے میں تقریباً 200 فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر تباہی کی بارش کر دی ہے، جس میں کم از کم 18,500 انسانی جانوں کا نقصان ہوچکا ،ان میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں، جب کہ اسرائیل کے انٹیلی جنس وزیر کی طرف سے غزہ کے باشندوں کو زبردستی بے گھر کرنے کے منصوبے کی بازگشت اور مصری حکومت پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ انہیں مستقل رہائش فراہم کرے۔
ایک شرمناک وڈیو:
یہ بات مجھے اُس وقت سمجھ آئی جب میں نے اس ہفتے ٹوئیٹر پر شیئر ہونے والی ایک شرم ناک وڈیو دیکھی۔ ویسے تو ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں کہ 2023 میں امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوششیں صاف طور سے بڑھنا شروع ہوچکی تھیں۔ سعودی عرب میں بین المذاہب کانفرنس کروائی گئی جس میں یہودیوں، عیسائیوں کو صاف کہا گیا کہ ہمیں اپنے عقائد کو چھوڑ کر انسانی مقصد کے تحت ایک ہونا چاہیے۔ اسی سلسلے میں امسال پہلی بار ہوا کہ تین اسلامی ممالک میں ’’اسرائیلی یوم آزادی‘‘منایاگیا۔ جی۔پڑھ کر آپ کو حیرت ہوئی ناں۔ مجھے بھی ہوئی۔ ایک ایسا ملک جو قبضہ کرکے بنا ہو، وہ اس قبضے کواپنی آزادی کا دن بتا کر دنیا بھر میں ایسے مناتا ہے جیسا کہ ِاس پر کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ابھی مزید خطہ لینا باقی ہے۔ اپنے قومی ترانے میں اسرائیل صاف کہتا ہے کہ ابھی مزید خطہ لینا ہے۔
ہوا یہ کہ اسرائیل نے اپنی ایک یہودی گلوکارہ کو کینیڈا سے اس تقریب میں بلوایا کہ وہ اسرائیل کا قومی ترانہ پڑھے۔ چوں کہ عرب امارات میں وہ بیٹھے تھے اس لیے عرب امارات کا بھی ترانہ پڑھا گیا۔ وہ ایک نام کے مسلمان گلوکار احمد الحسینی نے پڑھا۔ ’’جعلی خیر سگالی‘‘ دکھانے کے لیے عربی زبان میں یہودی گلوکارہ نے عرب امارات کے ترانے کو اُس کے ساتھ مل کر دہرایا۔ اس کے بعد ستم یہ ہوا کہ پھر دونوں گویوں نے مل کر ’’ناجائز اسرائیل ‘‘ کا ترانہ پڑھ دیا۔ جس کے الفاظ کسی باشعور مسلمان کے لیے دہرانے تک کے لائق نہیں کجا یہ کہ پورے احترام کے ساتھ اسے کسی تقریب میں پڑھا جائے۔ اُس میں صاف پڑھاجاتا ہے کہ اسرائیل آج بھی اپنی مزید کسی آزاد یروشلم کی زمین اور صہیونی تحریک سے امید لگائے ہوئے ہے۔ اس سے زیادہ جارحانہ، ظالمانہ ، جبری ترانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس ترانے کی تاریخ میں لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے۔ غزہ میں دو ماہ سے مستقل یہ خون بہہ رہا ہے۔ اس وڈیو نے سمجھایا کہ امریکہ صرف مالی لالچ ہی نہیں، سیاسی، ثقافتی ، سماجی ، ہر ہر پہلو سے میدان میں اترا ہوا ہے۔
بیچ میں ایک اور معاہدہ:
ملعون نیتن یاہو عجب ناقابل رحم حالت والی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کی 70 روزسے جاری جارحیت گواہ ہے۔ اقوام متحدہ اس کی سیکیورٹی کونسل سمیت کسی قرارداد کے باوجود اُس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اندھا دھند بمباری اور مسلم نسل کشی جاری ہے مگر اس کو پھر بھی سکون نہیں مل رہا۔ اس ہفتے ملعون نیتن یاہو نے تقریر میں کہا کہ ’’اوسلو معاہدہ سب سے زیادہ صہیونیت مخالف اور سب سے زیادہ یہودیت مخالف لوگوں کے ہاتھوں میں تیار ہوا۔ وہ اوسلو کی غلطی کو نہیں دہرانے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ’’غزہ کو نہ حماستان اور نہ ہی فتحستان بننے دیں گے۔‘‘ سادہ الفاظ میں دیکھا جائے تو نیتن یاہو اس بات کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ وہ حماس اور فتح دونوں سے نالاں ہیں اور غزہ میں دونوں میں سے کسی کی حکومت کی اجازت نہیں دیں گے۔
اوسلو میں کیا ہوا تھا؟:
30 سال قبل 13 ستمبر 1993ء کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امریکی صدر بل کلنٹن نے اوسلو شہر بلا کر یہ 17 نکاتی معاہدہ کرایا۔ کہنے کو اس سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیل کے درمیان ’’امن عمل ‘‘ کا آغاز ہوا، اس وقت حماس کے قیام کو غزہ میں 6 سال ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ آپس میں تشدد ختم کرکے بات چیت سے مسائل حل کرنے کے ظاہری مقاصد پر تھا۔ مگر درپردہ اسرائیل اور فلسطین کے وجود کو ایک حقیقت کے طور پر جان کر مطالبات و مشاورت ہو نے جا رہی تھی۔
کاکڑ لاجک:
اس ہفتہ نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے وسیم بادامی کو فلسطین ایشو پر جو شرم ناک بیان دیا وہ بھی امریکی آشیرباد کی ہی عطا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قائد اعظم کے مؤقف سے پلٹنا کفر نہیں، مگر بیت المقدس کے مؤقف سے پیچھے ہٹنا کیا ہے؟ آزاد کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹنا کیا ہے؟ کاکڑ کے بیان کی ٹوئٹر پر ٹرولنگ شروع ہو چکی ہے مگر یقین مانیں وزیر اعظم ’’2 ریاستی‘‘ فارمولے کے لیے اپنی تنخواہ حلال کر گئے۔
حماس کی دھمکی والی اپیل کو بھی جس طرح کاکڑ صاحب نے گرائونڈ سے باہر پھینکا وہ امریکی مؤقف سے وفاداری کی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں۔
حماس۔ ایک ہی چانس:
بحرین کی پارلیمنٹ نے اسرائیلی سفیر کو گھر بھیجنے کے بعد اسرائیل سے تمام اقتصادی تعلقات ختم کر دیے۔ انتظار باقی عرب ممالک کا ہے۔ اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کرنے والی عرب ریاستوں کو بھی اب کم ازکم یہ اعلان تو کرنا چاہیے کہ وہ امریکا کو ان اڈوں سے ہتھیاروں کی فراہمی کی اجازت نہیں دیں گے۔ ( دی ٹائمز)
امریکہ نے اِن تمام ممالک کو بھرپور نواز کر اپنے دام میں لیا تھا مگر یہ حماس کی ہی جرأت ہے کہ سب چیزیں جیسے رک سی گئی ہیں۔ ان کا ایسا ایمانی عمل نام نہاد 57 اسلامی ممالک کے منہ پر طمانچہ بن چکا ہے۔ امریکہ نے معاہدے کی مدد سے جتنے ڈورے ڈالے‘ وہ سب مکڑی کے جالے کی مانند ٹوٹ چکے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی جریدے کی سرخی ’’وقت آگیا ہے کہ ابراہیمی معاہدے کو اسکریپ کر دیا جائے۔‘‘ ایک اہم اور بڑا پیغام لائی ہے۔ سعودی عرب کی بڑھتی قربتیں اور دیگر ممالک کی جانب سے باتیں پیچھے چلی گئی ہیں ۔