ایک خبر کے مطابق 13 دسمبر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن ہے۔ یعنی اس دن ’’ہاتھ دھوئے‘‘ جائیں گے۔ سبحان اللہ! صفائی ستھرائی کے اس عزم عظیم کو سلام!
خبر بہت مختصر ہے۔ تفصیل ہوتی تو اچھا ہوتا۔ سارا دن دھونے ہیں، یا کسی خاص وقت دھونے ہیں، کتنے بجے دھونے ہیں، صابن سے دھونے ہیں یا؟ اس عظیم مشن کو این جی اوز انجام دیں گی۔ ویسے ہاتھ دھونے کے معاملے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہر روز صبح، دوپہر، شام، گھر، گلی، دفتر، دکان ہم اکثر وبیش تر ہاتھ ہی دھوتے رہتے ہیں۔ روزانہ بہت سے لوگ راہ چلتے ڈاکوئوں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی، موبائل، موٹر سائیکل، گاڑی اور قیمتی اشیاء سے ’’ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں‘‘۔ اور اگر مزاحمت کریں تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہائوسنگ سوسائٹیز، انوسٹمنٹ کمپنیز، مضارباز، اور ڈبل شاہوں کے ہاتھوں اپنی رقوم سے ہاتھ دھو بیٹھنا معمول کی بات ہے۔ کراچی میں تو حال ہی میں شہر کے حقیقی نمائندے نوسربازوں کے ہاتھوں مینڈیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا بہت بڑا تجربہ بھی کر بیٹھے ہیں۔
یہ جو 13 دسمبر کی تاریخ کو ’’ہاتھ دھونے‘‘ کے لیے چنا گیا ہے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔۔۔ اس کے پس منظر میں کچھ اور بات ہے۔ یہ 16 دسمبر سے محض تین دن پہلے پوری دنیا ہاتھ دھونے کی بات کیوں کر رہی ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے تو قومی سطح پر بھی بڑی بڑی نعمتوں سے ’’ہاتھ دھوئے‘‘ ہیں۔ جمہوریت کے نام پر پہلے ہی دن سے جمہوریت سے ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں۔ اسلامی ریاست کے نام پر اسلامی اقدار و روایات سے ہاتھ دھوئے ہوئے ہیں۔ مارشل لا کے نام پر 1958 میں ’’لا‘‘ سے ہاتھ دھوئے۔ پھر دوبارہ 1970 میں عوامی جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے ہاتھ دھوئے۔ وطن کے دفاع کے نام پر 1971 میں آدھے پاکستان سے ہاتھ دھوئے۔ نیشنلائزیشن کے نام پر بڑی بڑی صنعتوں اور پی آئی اے جیسے ترقی کرتے شاندار اداروں سے ہاتھ دھوئے! افغانستان کو روس سے آزادی دلاتے دلاتے اپنی خود مختاری اور آزادی سے ہاتھ دھوئے۔ ریاست مدینہ کے چکر میں شرافت و سیاسی، سماجی، اخلاقی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھے! کچھ ہی عرصہ پہلے حاجی صاحب اور روحانیت عرف ’’روحنیت‘‘ کے چکر میں کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے!
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’عالمی سطح پر ہاتھ دھونے کا دن منانے کا مقصد عوام میں گندگی سے جنم لینے والی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے‘‘ یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا اس مہم سے سیاسی، اخلاقی اور سماجی گندگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی آگاہی دی جائے گی یا…؟ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ملک بھر میں مختلف این جی اوز کے زیر اہتمام آگاہی واکس اور سیمینارز کا انعقادکیا جائے گا اس روز الیکٹرونک میڈیا پروگرام نشر اور پرنٹ میڈیا فیچر شائع کریں گے۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر ہاتھ دھلانے کے لیے ’’لوٹے اور ٹوٹیاں‘‘ کس پارٹی کی ہوں گی۔ یہ بتا دیا جاتا تو عوام کو اپنے اپنے لوٹوں تک پہنچنے میں آسانی ہوتی! یوں تو لوٹے اور ٹوٹیاں ہر پارٹی کے پاس موجود ہیں مگر سب سے زیادہ اور نویں نکور لوٹوں اور ٹوٹیوں کو پاکستان کی ایک نئی پارٹی کے ذریعے قلعی کروا کر تحفظ کے ساتھ سجایا اور ’’استحکام‘‘ بخشا گیا ہے۔ جن لوگوں کو اب تک موقع نہیں ملا ان کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے۔ جلدی کریں ہاتھ دھولیں!
ہمارے ہاں تو ’’ہاتھوں کی صفائی‘‘ کا اعلیٰ ترین سطح تک بہت خیال رکھاجاتا ہے۔ ہر چور اس طرح چوری کرتا ہے کہ عدالتوں کو چوری کے وہ ثبوت بھی نظر نہیں آتے جو پوری دنیا کو نظر آرہے ہوتے ہیں۔ ہے نا کمال کی بات! ہمارے سب بڑے بڑے سیاہ ست دان ’’ہاتھ کی صفائی‘‘ کے بہت ماہر ہیں۔ ملک کے ’’مالک‘‘ یہ اہتمام لازماً کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی گروہ، ٹبر یا پارٹی توشہ خانے اور خزانے کی ’’ڈائننگ ٹیبل‘‘ پر کھا کھا کر ہاتھ گندے کر لیتی ہے تو اس کو وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ پھر جب تک اس کے ہاتھ دھلا نہ دیے جائیں، ’’کھانے‘‘ کا موقع نہیں دیا جاتا۔ آج کل ہماری عدالتیں بڑی محنت سے ’’ٹبر شریف‘‘ کے ہاتھ دھلانے میں مصروف ہیں۔ تاکہ ’’ٹیبل‘‘ پر چوتھی مرتبہ ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ان کے ہاتھ صاف نظر آئیں!