نگران وزیر ِ اعظم انورالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ ملک میں امن بحال کرنے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی یہ تو ردِّ پہ ردّا رکھنے والی بات ہے کیونکہ امن برقرار رکھنے کا ذمے دار ہر شہری ہے اور اس کے خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا بھی مقرر ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کیا جائے مگر ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ مقتدر طبقہ خود کو خلائی مخلوق سمجھتا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اس طبقے کو قانون سے بالاتر بنا دیا گیا ہے جب تک خود سر طبقے کو قانون کی بالادستی پر مجبور نہیں کیا جاتا، ملک میں امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی رہے گی۔ غریب آدمی بھوک سے مجبور ہوکر ایک روٹی بھی چوری کرتا ہے تو پولیس مار مار کر اْس کا حلیہ ہی بگاڑ دیتی ہے اور پھر عدالت میں اْس کا چالان پیش کر دیا جاتا ہے اور محترم جج اْسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں مگر جو لوگ عوام کو افلاس کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے ملکی وسائل چوری کرتے ہیں پولیس اْنہیں سلیوٹ مارتے نہیں تھکتی۔
کاکڑ صاحب کا ارشادِ گرامی ہے کہ پولیس نے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں حالانکہ زمینی حقائق گواہ ہیں کہ پولیس قربانی کے بکرے یا گائے بھی عوام سے لیتی ہے۔ اْن کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم پولیس کے مقروض ہیں بالکل مقروض ہیں جو قربانی کے لیے بکرا یا گائے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے اور پولیس بھی اْن کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو سْود خور مقروض سے کرتا ہے۔ اْن کا یہ کہنا کہ آئین کے تحت کوئی فرد یا گروہ امن شکن کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں افراتفری پھیلانے والے ملک کے بدترین دشمن ہوتے ہیں سو، کوئی بھی معاشرہ انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جس معاشرے میں چال چلن اور رویوں میں بہتری کی جدوجہد نہیں کی جاتی وہاں امن برقرار نہیں رہتا۔ نگران وزیر ِ اعظم کے خیال میں بد امنی کے خلاف قانون نافذکرنے والے ادارے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ عدالتیں وکلا کے پیچھے کھڑی دکھائی دیتی ہیں چوری چکاری کا مقدمہ ہو یا قتل و غارت گری کا جج صاحبان وکلا کی مرضی کے خلاف فیصلہ سنانے میں تذیذب میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں یہ کیسا نظامِ عدل ہے کہ مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں کیونکہ جسٹس صاحبان مقدمہ سننے کے روادار ہی نہیں حالانکہ پیشی دینا بھی قانون کے خلاف سمجھتے ہیں یوں پیشی لیفٹ اوور ہوجاتی ہے جس کے ردِّ عمل میں مدعی اور مدعا الیہ دست و گریبان ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر کمزور فریق طاقتور فریق کی شرائط پر صْلح کر لیتا ہے۔
نگران وزیر ِ اعظم کے اس تجزیے سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ پولیس کا کردار خدائی خاکروب جیسا ہے مگر المیہ یہ بھی ہے کہ بعض سینئر پولیس افسران انسانی اسمگلنگ میں جرائم پیشہ افراد کے پارٹنر بن گئے ہیں اور کچھ پولیس افسر ایسے بھی ہیں جن پر فخر کیا جاتا ہے اْن کی کارکردگی قابل ِ تحسین ہوتی ہے کاش! تمام پولیس اہلکار اور ان پولیس افسران کی تقلید کرتے اْ ن کے نقش ِ قدم پر چلتے مگر ہم سب ہی اچھے بْرے لوگوں کا مجموعہ ہیں جس کے باعث ہماری شناخت دھندلا گئی ہے اْنہوں نے استفسار کیا کہ برطانیہ، امریکا، فرانس یا یورپ کے دیگر ممالک میں کوئی بمبار اپنا شکار ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کتنے لوگ اینٹی ائرکرافٹ گنز لے کر پھرتے ہیں مگر ہمارے ملک میں عوام اسلحہ لیے بغیر گھر سے نہیں نکلتے، یہاں یہ سوال کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ اسلحہ رکھنے کی اجازت کون دیتا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں بدامنی کی ذمے دار حکومت ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ دہشت گردی کا سبب بے روزگاری ہے اور امن شکنی چوری اور ڈاکہ زنی کا بڑا سبب مہنگائی ہے اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امن برقرار رکھنے کے لیے قانون سازی کی نہیں کردار سازی کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت اْس وقت پوری ہوسکتی ہے جب مقتدر طبقہ سے قرض کی وصولی کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کی کردار سازی ہوسکے خالی پیٹ شیطان کا گھر ہوتا ہے جو کردار کو بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔