سقوط ڈھاکہ بے شک 16 دسمبر 1971 کو ہوا تھا لیکن اس کے ڈانڈے بنگلا زبان کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دیے جانے کے مطالبے کے حوالے سے ہونے والے واقعات سے جا ملتے ہیں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دینے کا اعلان کیا تھا جس پر قائد اعظم کی زندگی میں ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں پولیس فائرنگ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چند طلبہ مارے گئے اور ان کی یاد میں شہید مینار تعمیر ہوا۔
پہلی دستوریہ کے توڑے جانے، بنگال سے تعلق رکھنے والے اسپیکر مولوی تمیزالدین کی اپیل کا سندھ کورٹ میں منظور ہونے کے بعد چیف کورٹ میں جسٹس منیر کی طرف سے رد کرکے گورنر جنرل کو آمرانہ اختیارات دیے جانے نے اضطراب میں اضافہ کیا۔
1956 کے آئین میں مشرقی اور مغربی حصّوں میں برابری کے لیے بنگال کے ارکان کی منظوری اور بنگالی وزیراعظم کی موجودگی میں برابری کا فارمولا طے کرنے کے باوجود انتخابات کے بجائے ایوب خان کے مارشل لا کا نفاذ اور 1956 کے آئین پاکستان کی تحلیل نے مشرقی حصّے کے احساس محرومی میں اضافہ کیا۔
فوجی بھرتی کے لیے جسمانی ساخت کی احمقانہ شرائط کے باعث فوج میں بنگالیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہونا بھی ناراضی کا سبب بنا۔ 1962 کے دستور میں بالغ رائے دہی کے بجائے دونوں حصّوں سے 40، 40 ہزار نمائندوں کا انتخاب جو یونین کونسل سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور صدر پاکستان کے انتخاب کے لیے الیکٹرول کالج قرار دیے گئے تھے یہ افراد بی ڈی رکن کہلاتے تھے، جمہوریت کے ساتھ مذاق سمجھا جاتا تھا۔
1964 کا صدارتی انتخاب جس میں نہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے دھن دھونس اور دھاندلی کے حربوں کو استعمال کیا گیا بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی کی گھٹیا حرکتیں بھی کی گئیں علٰیحدگی کے اسباب میں شامل ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے سیکڑوں میل کے علاقے پر بھارت کا قبضہ ہوگیا اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا کیونکہ کہا جاتا تھا کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا تو پاک فوج دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کردے گی لیکن یہ بھرم ٹوٹ گیا۔ معاہدہ تاشقند کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے غیر ذمے دارانہ دعوے، مجیب الرحمن کے خلاف اگر تلہ سازش کیس کی کمزور پیروی اور کیس ختم کرانے کے لیے بھٹو کا ایوب خان پر دباؤ، ایوب خان کے خلاف ایک سال سے زیادہ جاری رہنے والے احتجاج کے نتیجے میں ایوب خان کی طرف سے انتخابات کے اعلان کو تسلیم نہ کیا جانا، بحران کو حل کرنے کے لیے ایوب خان کی طرف سے 1962 کے دستور کے مطابق عہدہ صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر (جو بنگالی تھے) کے سپرد کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے ذریعے مارشل لا کا نفاذ، وہ مسائل تھے جن میں سے ہر ایک نے یک جہتی میں دراڑ ڈال کر قومی سلامتی کے امکانات کو بغاوت کے خدشات میں بدل دیا تھا لیکن اقتدار کے گھڑ سواروں کو جیسے حالات کا ادراک ہی نہیں تھا۔
1965 کی جنگ کے بعد 5 فروری 1966 کو شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں عوامی لیگ کی جانب سے مشرقی پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے لیے 6 نکات پر مشتمل فارمولا پیش کیا، جسے نہ صرف ایوب خان بلکہ مغربی پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعلان بغاوت اور ملک توڑنے کی سازش قرار دیا گیا، حالانکہ ان نکات پر بامعنی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کی جاسکتی تھی۔
1969 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد مشرقی پاکستان کے حالات خراب سے خراب تر ہونا شروع ہو چکے تھے لیکن جنوری 1970 میں ایل ایف او کے ذریعے بالغ رائے دہی کا حق دیتے ہوئے اکتوبر 1970 میں عام انتخابات کے اعلان اور جولائی 1970 میں ون یونٹ توڑے جانے کے بعد شیخ مجیب کا ’’جن‘‘ ان کے قابو سے بھی باہر ہو چکا تھا، جن کا خیال تھا کہ گیٹ نمبر چار کے عاملین ہر سرکش ’’جن‘‘ کو قابو میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں، لیکن ’’جن‘‘ قابو سے باہر ہوچکا تھا یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ’’جن قابو سے باہر کیا جاچکا تھا‘‘۔
آپ خود سوچیں کہ جب 55 کو جنہیں 50 گنا جاتا ہو، یہ خوش خبری سنائی جائے کہ اب مشرق کو نا صرف 55 گنا جائے گا بلکہ مغرب کے 45 کو جنہیں 50 گنا جاتا تھا نہ صرف 45 گنا جائے گا بلکہ انہیں چار حصّوں میں تقسیم بھی کردیا جائے گا تو پھر ’’جن‘‘ کو گیٹ نمبر 4 کے قابو میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔
(جاری ہے)