بالآخر ڈنمارک کی پارلیمان نے مقدس کتب کی توہین اور بے حرمتی پر پابندی عائد کردی۔ وہاں اس قانون کو ’’قرآن قانون‘‘ کہا جارہا ہے۔ اس کے تحت خلاف ورزی کرنے والے کو دو سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ سوئیڈن کی طرح دوسرے یورپی ممالک کو بھی ایسے قوانین پاس کرنے چاہئیں۔ مقدس کتابوں اور مقدس ہستیوں کی بے حرمتی تمام مذاہب کے خلاف ہے۔ یہ کام اظہار رائے کی آزادی کے پردے کے پیچھے چھپ کر کرنا ہر مذہب کے فرد کے دل کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ڈنمارک کو عقل آئی سوئیڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ بار بار ہوا دیگر یورپی ممالک بھی اس میں شامل رہے۔ خاص طور سے ہالینڈ میں تو گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا گیا، بعد میں ناہنجار گیرٹ نے خود ہی یہ منسوخ کیا۔ اس وقت ہالینڈ کے میڈیا نے اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں اور سوشل میڈیا کے احتجاج کو قرار دیا تھا۔ آج اگر ڈنمارک نے یہ قانون پاس کیا ہے اور سوئیڈن بھی کسی ایسے قانون کے ذریعے قرآن کی بے حرمتی کو قانونی طور پر پابندی لگانے پر غور کررہا ہے تو وہ ان ہی عوامی مظاہروں اور سوشل میڈیا پر احتجاج کے باعث ممکن ہوا۔ جو پوری دنیا میں تواتر سے کیے گئے۔ لہٰذا آج اگر کوئی یہ کہے کہ سڑکوں پر مظاہروں سے کیا ہوتا ہے؟ اور سوشل میڈیا سے کسی خیر کی توقع کرنا بیکار ہے۔ اس کے لیے جواب یہی ہے کہ دنیا تک بات پہچانے کے لیے یہ دونوں ذرائع اہم ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتور ترین ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے بلکہ بعض دفعہ تو یہ دیوانگی میں بدل جاتی ہے کہ خواہ پورے دن تھکن سے برا حال ہوچکا ہو مگر جب تک سوشل ویب سائٹس کا وزٹ نہیں ہوتا تب تک نیند کے لیے آنکھیں بند نہیں ہوتیں۔ یہی چیز سوشل میڈیا کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ سوشل میڈیا آج اپنے پیغام کے وسیع تر اشاعت کے لیے ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پیغام غلط بھی ہوسکتا ہے اور صحیح بھی۔ سوشل میڈیا کی پروپیگنڈا ٹول کی حیثیت سے پہچان مسلمہ ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آج یہ ممکن ہوسکا ہے کہ ایک بڑے گروپ تک باآسانی رسائی ہوجائے۔ اور لمحوں میں آپ کی بات دنیا کے مختلف اطراف تک پہنچ کر اثرات ڈالے۔ سیاسی طور پر سوشل میڈیا نے سب سے پہلے مصر کے 2014ء میں ہونے والے انقلاب کے وقت اس کے واقعات دنیا کے سامنے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ اس وقت حسنی مبارک نے انقلاب سے متعلق ہر قسم کی خبروں پر سخت پابندی عائد کررکھی تھی۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید دنیا مصری انقلاب سے اتنی اچھی طرح واقف ہی نہیں ہوتی۔ اسی طرح آج اگر غزہ پر اسرائیلی مظالم سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک نہ پہنچائے جاتے تو اسرائیل اور امریکا یوں دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہوتا۔ آج غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی درندگی کو ستر دن ہونے والے ہیں۔ صہیونی فوج غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد ایک ایک گھر میں گھس کر لوگوں کو گرفتار اور قتل کررہی ہے۔ وہ سب سے زیادہ وہاں کے صحافیوں کی خون کی پیاسی ہے۔ اب تک وہ نوے کے قریب صحافیوں کو شہید کرچکی ہے جن میں سے بعض کے اہل خانہ کو ٹارگٹ بمباری کے ذریعے شہید کیا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کے ذریعے غزہ کے حالات دنیا تک نہ پہنچ سکیں۔ لہٰذا صہیونی ارادوں کی ناکامی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان سوشل میڈیا کے ذریعے غزہ میں گزرنے والی قیامت کو لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ دنیا کو بھولنے نہ دیں کہ فلسطین کی آزاد ریاست مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے اور غزہ پر کسی بھی طرح کا انتظامی منصوبہ اس کو ہڑپ کرنے کے لیے ایک جال ہے۔ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ حماس اور مزاحمتی گروہوں کے بغیر غزہ میں کوئی بھی انتظامی منصوبہ ایک سراب اور دھوکا ہوگا اور ہمارے لوگ اور ہماری مزاحمت اب بھی جدوجہد اور ثابت قدمی کی روشن تصویر پیش کرتی ہے۔ لہٰذا بات کرتے رہیں۔