’’بتا تو سہی اور کافری کیا ہے…‘‘
پاکستانی حکمرانوں کو اکثر دنیا کی یاد آتی رہتی ہے اور عموماًاُس وقت یاد آتی ہے جب اُنہیں عوام کو کوئی بھاشن دینا ہوتا ہے۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی پیدائش والے مہینے میں عالمِ اسلام کے لیے انتہائی حساس مسئلے اسرائیل کے بارے میں قائداعظم کی رائے سے اختلاف اور اس پر اصرار کسی فوجی‘ کسی ڈکٹیٹر یا کسی سیاسی جماعت کے مقبول عوام لیڈر نے نہیں کیا ہے بلکہ یہ اعزازپاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے حصے میں آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین تنازع کا دو ریاستی حل میں نے پیش نہیںکیا ہے بلکہ ساری دنیا کہہ رہی ہے اور دو ریاستی حل ہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی پارلیمنٹ تمام سیاسی جماعتیں‘ انٹیلی جینس ایجنسیاں سوچ بچار کے بعد قائداعظم کی رائے سے مختلف نتیجے پر پہنچتی ہے تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں؟ پہلے فلسطینیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جن کے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ قائداعظم کی رائے سے اختلاف کی بات تو بعد میں کی جائے گی پہلے نگراں وزیراعظم یہ تو بتا دیں کہ فلسطین میں جو لوگ لڑ رہے ہیں وہ کس کے بچے ہیں؟ کیا وہ مصر‘ شام اور اردن سے وہاں گئے ہیں یا عالم اسلام سے جمع کرکے بھیجے گئے ہیں۔ جس طرح اسرائیل دنیا بھر سے لوگ جمع کرکے فلسطینی زمین پر بسایا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم صاحب یہ بھی بتا دیں کہ کیا وہ فلسطینیوں سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ پہلے فلسطینیوں تک دوائیں‘ خوراک‘ گرم کپڑے ہی بھیج دیں۔ دو ریاستیں ہونے کی صورت میں بھی نہتے لوگوں پر بم باری کی کس ملک کو اجازت ہے۔ لیکن اس کی بم باری کے نتیجے میں اس کا وجود حق مان لینا تو کوئی حل نہیں ہے۔ اسرائیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو نگراں وزیراعظم کو پتا چل جائے گا کہ دو ریاستی حل کا مطلب قائداعظم کی رائے سے اختلاف کیوں ہے؟
اب ذرا یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کفر کے درجے میں کیا کیا آتا ہے۔ اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی سزا انتہائی سخت بیان کی گئی ہے۔ لیکن پاکستان میں سودی نظام رائج ہے۔ یہاں بھی قائداعظم کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سودی کاروبار پر لگا رکھا ہے جب کہ قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہی رائے دی تھی کہ ملک میں بلا سودی نظام وضع کیا جائے گا۔
اس رائے سے اختلاف صرف قائداعظم کی رائے سے اختلاف نہیں یہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے اور ہمارے حکمران یہ جنگ کیے جا رہے ہیں اور دنیا میں ذلیل و رسوا ہوئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے شراب کو حرام قرار دیا ہے لیکن ہمارے تمام حکمرانوں کے دور میں شراب اور جوئے پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ اس بارے میں شاید قائداعظم کی رائے کا معاملہ نہ آئے لیکن یہاں براہِ راست اللہ اور رسولؐ کے حکم سے اختلاف ہے۔ جوان مردوں اور عورتوں کی مخلوط مجالس اسلام میں ممنوع ہیں لیکن ہمارے حکمران ایسی مجالس کی ہمت افزائی بھی کرتے ہیں اور انعقاد بھی کرتے ہیں۔ اللہ اور رسولؐ نے امانت داری کا حکم دیا ہے اور ہمارا حکمران طبقہ امانتیں اہل لوگوں کو دینے کے بجائے نااہلوں کو دیتا ہے اور اسے ان کا حق سمجھتا ہے۔ اسے کس زمرے میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی عدالتیں سود کے خلاف مقدمے میں وہیں باتیں پوچھتی ہیں جو کفار مکہ پوچھتے تھے کہ تجارت میں بھی تو منافع ہے تو سود کیوں حرام ہے؟ یہ سوال تو سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے استہزائیہ انداز میں پوچھا تھا کہ ربا اور منافع میں فرق واضح کریں‘ اسے کفر کے زمرے میں شامل کیا جائے یا نہیں؟ ہماری عدالتیں انگریز کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد روک دیتی ہیں۔ اسے کفر کے زمرے میں رکھا جائے یا کسی اور میں؟
نگراں وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ قائداعظم کی رائے سے اختلاف کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔ لیکن موصوف نے جن لوگوں یا اداروں کا نام لیا ہے کہ وہ سوچ بچار کے بعد قائداعظم کی رائے سے اختلاف کر لیں تو اس میں کہیں سے کفر تو نہیں آجاتا۔ لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ یا انٹیلی جنس ایجنسیوں میں کون ایسا باصلاحیت ہے جو قائداعظم کی کسی ادنیٰ سی رائے کا جائزہ لینے یا اس پر تحقیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں تو ملک میں موجود غیر ملکی جاسوسوں کی نیٹ ورک‘ دہشت گردوں کی موجودگی سے بھی ناواقف ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں پاک فوج‘ رینجرز‘ پولیس اور عوام بار بار جانی نقصان اٹھاتے ہیں۔ اور پارلیمان کے تو کیا کہنے اس پر تبصرہ کرنا شاید کسی نئے قانون کے زمرے میں آجائے لیکن کوئی رکن پارلیمان اٹھ کر یہ تو بتائے کہ میں قائداعظم کی کسی بھی رائے پر تحقیق کر سکتا ہوں اور اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔
اب یہ بھی دیکھ لیں کہ فلسطین کا بچہ بچہ تو یہ کہتا ہے کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے حالانکہ ان بچوں اور جوانوں کی قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن وہ قائداعظم کی رائے سے سو فیصد متفق ہیں۔ ڈھائی ماہ ہونے کو ہیں اسرائیل مٹھی بھر حماس مجاہدین کو ختم نہیں کرسکا۔ اس کی پشت پر امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ کینیڈا اور ساری مغربی حکومتیں اور مسلمان حکمران ہیں۔ کاکڑ صاحب نے کہا کہ ساری دنیا دو ریاستی حل کی بات کر رہی ہے۔ ساری دنیا نے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام مخالفت کی تھی‘ ساری دنیا تو طالبان کے خلاف تھی‘ ساری دنیا تو اسلامی شعائر کے خلاف ہے‘ ساری دنیا بے حیائی اور فحاشی کی علمبردار ہے تو کیا ہم ساری دنیا پر ایمان لے آئیں؟ مسلمان تو اس نبیؐ کے ماننے والے ہیں جو کہتا تھا کہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دو تو بھی میں کلمے کی ترویج کے مشن سے باز نہیں آئوں گا۔ دوسرا پہلو دیکھیں تو ساری دنیا میں حکومتیں عوام کی خدمت کرتی ہیں‘ ان کو آسانیاں فراہم کرتی ہیں۔ لبنان جیسے جنگ زدہ ملک کا حال ہی میں دورہ کرکے آنے والے پاکستانی صحافی جیو کے سینئر رپورٹر طارق ابوالحسن نے بتایا کہ وہاں بھی ٹوٹی ہوئی سڑک کا تصور نہیں ہے‘ کہیں گٹر بہتا ہوا نظر نہیں آتا حتیٰ کہ اسرائیلی بم باری سے قبل غزہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ امریکا کو یورپ کے تو کیا کہنے… وزیراعظم صاحب! ساری دنیا میں بہت کچھ ہوتا اور یہ سب بھی… کون سی باتیں مانیں۔