بھارتی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پاکستان کی کمزوری

641

یہ کہنا کہ یہ بھارتی عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ آج ہوا ہے درست نہیں ہے۔ برسوں سے پاکستانی حکمران وہی کچھ کشمیریوں کے ساتھ کر رہے ہیں جو عرب ممالک 75برسوں سے آج تک فلسطینیوںکے معصوم بچوں کو شہید ہوتا دیکھ کر کر رہے ہیں۔ 1997 اور 1998ء کے دوران بھارت نے کشمیریوں کے خلاف سخت آپریشن شروع کیا تھا اور عام کشمیریوں کے کھروں میں گھس کر کشمیری لڑکیوں کو تفتیش کے بہانے فوجی چھائونیوں میں لے جاکر ان بے آبروکرتے اور اس کے بعد رہا کرتے ہوئے ان سے کہتے تھے کہ ’’جاؤ جاکر اب ہندو بچہ پیدا کرو۔ یہ کشمیری بچہ بھارت کا غدار نہیں ہو گا‘‘۔ ان بچیوں کی اکثریت اپنے گھروں میں واپس جانے کے بجا کشمیر کے دریاؤں میں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیتی تھیں۔ ان لڑکیوں کی لاشیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہتی ہوئی آتی تھیں۔ اس وقت بھی ہم پاکستانی صرف مذمت اور کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کرتے تھے اور آج ہم کیا مختلف کر رہے ہیں۔
اس بات کا پہلے دن سے امکان تھا کہ ہماری ’’اخلاقی حمایت‘‘ بھارت کو کشمیر میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں اس کی مدد کر ے گی اور ایسا ہی ہوا ہے۔ مودی حکومت نے 2014ء سے اس مسئلے کو بھارت کے حق میں موڑ دیا۔ پہلے مرحلے میں کشمیر اور پاکستان کی سرحدوں پر خاردار باڑ لگا کر پاکستانی اور کشمیروں کے درمیان تعلقات کے راستے کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دی اور بھارت نے کشمیر کو غزہ بنا دیا۔ اس دوران پاکستان نے یہ کر کہہ کر کہ پاکستان کشمیری مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے خاموش رہا ہے۔ اس تمام کارروائی سے کشمیر کی آزادی کو ایسی کاری ضرب لگی کہ آج کشمیر کے تمام قانونی راستوں کو تالالگا دیا گیا ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بارے میں بھارت کے انگریزی روزنامہ ہندو کے مطابق اس متفقہ فیصلے میں دنیا کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 جنگی ماحول میں ایک عارضی انتظام تھا اور اس کی نوعیت بھی عبوری تھی۔ اس اخبار کے مطابق اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس سے ریاست کے بھارت میں انضمام کے بعد جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری ختم ہو گئی ہے۔ حسب ِ روایت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری رہنما اور تنظیمیں اس فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل ایک جج ایس کے کول نے سفارش کی ہے کہ جموں کشمیر میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، ان کی تفتیش ایک کمیشن کے ذریعے کرائی جائے۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ہندو دہشت گردی اور عسکریت پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کی رائے یہی ہے کہ اس مسئلے کا حل وہی ہے جس کا عملی مظاہر حماس 7اکتوبر سے غزہ میں کر رہی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری تنظیموں نے بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر وہاں عسکریت پسندی دوبارہ سر اُٹھا سکتی ہے۔ کچھ کشمیری رہنماؤں نے بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ تضاد سے بھرا ہوا بھی ہے۔ لیکن بین الاقوامی قوانین کے مالک ممالک جو کچھ کر سکتے ہیں وہ اسر ائیل کی حمایت کر کے کر رہیں۔
وفاقی وزیر مشال ملک، یونائیٹڈ کشمیر نیشنل پیپلز پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری کا کہنا ہے کہ کشمیریوں نے ماضی میں عسکریت پسندی کے بھیانک نتائج دیکھے ہیں، اس لیے وہ اس طرف نہیں جائیں گے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پورے کشمیر میں شدید اشتعال ہے۔ مشعال ملک کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے بھی خلاف ہے، جو جموں کشمیر کے منقسم خطے کو ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھارتی آئین کے شق نمبر 51 اور 53 کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے حوالے سے ہم مزید قانونی پیچیدگیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ صدارتی حکم نامہ 1954ء کی بھی خلاف ورزی ہے‘‘۔
انسانی حقوق کی متعدد بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری رہنما افضل گرو کے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہمیشہ سے متعصبانہ رہا ہے، ’’عدالت عظمیٰ نے مقبول بٹ اور افضل گرو کے لیے کوئی منصفانہ فیصلے نہیں دیے تھے‘‘ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عدالتی فیصلہ مایوس کن رہا ہے، ’’بابری مسجد کے حوالے سے بھی ایسا ہی فیصلہ سنایا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے سارے ادارے ہندتوا کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔ سردار عتیق احمد خان کے مطابق اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی زد میں ہے‘‘۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات پر کئی بھارتی اور غیر سرکاری تنظیمیں آواز اُٹھاتی رہی ہیں۔ اب تک بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، ان میں عوام نے بہت کم شرکت کی ہے اور ٹرن آوٹ ہمیشہ ہی کم رہا ہے۔ اگر اگلے برس کے انتخابات میں یہ ٹرن آوٹ زیادہ دکھاتے ہیں، تو ایسا ممکنہ طور پر ان 40 لاکھ سے زیادہ غیر کشمیری باشندوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہو گا، جن کو کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے وہاں بسایا گیا ہے‘‘۔
شوکت علی کشمیری کے مطابق ریاست کی حیثیت بحال کرنے کا سیدھا سا مطلب تو یہ ہے کہ لداخ کی علٰیحدگی کو نا منظور کیا جائے، لیکن بھارتی عدالت عظمیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ شوکت علی کشمیری کا دعویٰ تھا کہ تاریخی طور پر آئین ساز اسمبلی کو یہ اختیار تھا کہ وہ متنازع علاقے میں کسی بھی طرح کی جغرافیائی تبدیلی کی منظوری دے، لیکن بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے لداخ کو ایک یونین علاقہ بنا دیا، جو خود بھارتی آئین کے بھی خلاف تھا۔ اب اس بات میں کوئی اور رائے پیش نہیں کی جاسکتی کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے ان سیاسی جماعتوں کی ساکھ بھی متاثر ہو گی، جن کو بھارت نواز سمجھا جاتا ہے۔ اب ان کے ان دعووں میں کوئی جان نہیں رہی کہ بھارت کے اندر جمہوری طریقے سے رہتے ہوئے کشمیری عوام اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں، بی جے پی کے انتہا پسندانہ نظریات اب تمام بھارتی اداروں میں سرایت کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت کو یہ بات رکھنی چاہیے کہ اس خطے کو زیادہ عرصے تک قید نہیں کیا جاسکتا ہے جس کے چپے چپے کے عوام آزادی کو موت سے برتر سمجھتے ہیں۔