نواز شریف کی آمد کا جیسے انتظار تھا، الیکشن بظاہر بالکل سر پر ہیں، سیاسی سرگرمیاں عروج کی طرف جا رہی ہیں۔ ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ تھا تو تحریک انصاف کا ترانہ، لیکن اسی ترانے کے پیرائے میں بلاول زرداری جس طرح پیپلز پارٹی کو لے کر جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ معصوم لوگ ہیں، ہمیشہ سے اقتدار سے محروم، اگر ان کو اختیار مل گیا تو نہ جانے ملک کو کس اوج ثریا پر لے جائیں گے؟ پیپلزپارٹی کو مرکز اور صوبے میں پے درپے حکمرانی کے مواقع ملے لیکن وہ ملک سے غربت، لاقانونیت، لوگوں کے لیے سہولتوں کی فراہمی، موثر خارجہ پالیسی، اقربا پروری کے خاتمہ وغیرہ، ہر شعبہ زندگی میں اپنے ہر دور میں یکساں ناکام ثابت ہوئے۔ اگر حقیقت حال جاننا ہو تو سرکاری محکموں میں کرپشن، عوام اور سندھ کے عام آدمی کی زندگی دیکھ لیں جہاں یہ اکثریتی پارٹی ہیں۔
مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی کی حکومت کا ہی تسلسل ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ اپنے ادوار حکمرانی میں نئے اور پرانے وعدوں کے سنگم اور خواب دکھا کر حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی اور عوام بیچارے ان کو نجات دہندہ کے طور سے دیکھتے رہے۔ امن و امان کی صورتحال ہو یا ملک میں بجلی کا بحران اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ، کشکول توڑنے کے وعدے کی بات کی گئی، انہوں نے تو کشکول کو مضبوط کرنا اور اس کا حجم بڑھانا شروع کر دیا۔ پیٹ پھاڑ کر، سڑکوں پر گھسیٹ کر، ملک کی دولت واپس لانے کے وعدے کے بجائے ان ہی عناصر کے ساتھ مل کر حکومت سازی ابھی ماضی قریب ہی کی تو بات ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا پاناما کیس یا ڈان لیکس یا پھر ختم نبوت کے حلفیہ قانون میں تبدیلی کی بات۔ ہندوستان سے کشمیر کی قیمت پر دوستی بڑھانا، کشمیر کو نظر انداز کرنا، امریکی غلامی میں سجدہ ریز رہنا، یہ سب وعدہ خلافیاں اور رویے عوام کے حافظہ سے تو محو ہیں لیکن آئینہ ایام ابھی دھندلا نہیں ہوا ہے۔ شریف برادران پر کرپشن کے الزامات ہیں لیکن بظاہر عدالتوں سے موافقت مل رہی ہے۔ عمومی طور سے اسٹیبلشمینٹ کے منظور نظر ’’گہرا تاثر‘‘ ہونے کے ’’ازالہ‘‘ کے لیے انہیں سابقین اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت ایک حد تک دی گئی ہے، جس کے لیے ان کی برداشت اور بے چینی دیکھی نہیں جارہی تھی، غالباً اسی بحالت مجبوری ’’بیان بازی‘‘ نہ کرنے کو ہی، نواز شریف کے احسان تلے دبے، اپنے اپنے مفادات سے وابستہ صحافی، نواز شریف کی پاکستان آمد کے بعد سے ان کی مدح سرائی اور اپنے اپنے کالموں میں انہیں ’’مدبر‘‘ کے درجے پر فائز کرنے کی سعی و جہد میں مصروف عمل رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت بھی مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا تسلسل ثابت ہوئی، سودی نظام، آئی ایم ایف سے معاہدہ، کشکول نہ توڑنے کی اور دیگر مسلم لیگ(ن) کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ عمران خان نے جتنے وعدے قوم سے کیے تھے ان وعدوں کو وفا کرنے کے لیے انہوں نے نہ ’’ہوم ورک‘‘ کیا تھا اور نہ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی پروگرام تھا اور نہ ہی با صلاحیت ٹیم، اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ’’چار عدد‘‘ تو انہیں وزیر خزانہ تبدیل کرنے پڑے، ان ہی میں آخری وزیر، ماضی کی ناکام حکومتوں میں شامل، شوکت ترین تھے، جو ابھی چند دن پہلے ہی پی ٹی آئی کو داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ وعدوں کی اہمیت کو تو آصف زرداری نے یہ کہہ کہ اڑا دیا تھا کہ (نعوذ باللہ) وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے، جبکہ عمران خان کی وعدہ خلافیاں ’’یو ٹرن‘‘ کہلائے جانے لگیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں جس خصلت کے ہونے کو منافقت اور منافق کی نشانی بتائی گئی، ان وعدہ خلافیوں کو ہماری سیاست میں، دینی معاملات میں، مذاق کا عنوان بنا لیا گیا، یہ ہماری قومی سطح کی سنجیدگی کا حال ہے۔ 2018 الیکشن سے قبل خود عمران خان، مراد سعید اور دیگر لیڈروں نے ایسا سماں باندھا کہ اِدھر عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو اْدھر دوسرے دن سے کرپٹ لوگ سولیوں پر ٹنگے نظر آنے لگے، بیرونی ممالک سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے انبار لگ گئے، بیرون ممالک میں لوگ پاکستان میں ملازمتوں کے حصول کے لیے لائن میں لگے ہوئے نظر آنے لگے، پاکستانی پاسپورٹ کا وقار دنیا میں سب سے بلند ہو گیا؛ لیکن عملاً ہوا کیا؟، سب نے دیکھ لیا۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ایک ایسی پارٹی، کہ جس کے تقریباً تمام سر کردہ رہنما، 9 مئی کے واقعہ کے بعد اندرونی حالات کا دباؤ برداشت نہ کر پائے، کیا وہ کسی بھی حکومت چلانے کے اہل ہو سکتے ہیں؟ ایسے کمزور کردار کے لوگ موجودہ حالات میں قدم قدم پر بین الاقوامی چیلنجز کا مقابلہ اور دباؤ، بھلا کیسے برداشت کر سکیں گے؟، سیاست میں صرف تقاریر اور چینلز پر دروغ گوئی کے ملاکھڑے اور ایک دوسرے کو گفتگو میں زیر کرنے سے، مسائل کو عوام کی آنکھوں سے کچھ عرصہ کے لیے اوجھل تو کیا جا سکتا ہے، لیکن مسائل حل کرنے کی لیاقت و قابلیت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ نتیجہ اور تجربہ نے سچ ثابت کیا کہ قول و عمل کے انحراف کے ہمیشہ بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
عمران خان کی سیاست کو جانچنا ہو تو، سیلاب میں دیکھیے، جب پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا تو اشد ضرورت تھی کہ اس وقت تحریک انصاف اپنی سیاسی قوت دکھانے کے زعم کے بجائے، سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے، سیلاب زدگان کے ساتھ مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑی ہوتی۔ لانگ مارچ، وزیر آباد فائرنگ واقعہ کے بعد ضرورت تھی کہ اپنی سیاسی قوت کو اور سیاسی مزاحمت جاری رکھی جاتی، وہ اپنی سیاسی مزاحمت کو اس انداز میں جاری نہ رکھ پائے۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد، بجائے اس کے کہ سیاسی طور سے اپنی قوت مجتمع کر کے، ہر حال میں اور کسی بھی درجہ میں، مزاحمت کو جاری رکھا جاتا، سب کچھ اس طرح بیٹھ گیا جس طرح غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ بڑی حیرت کی بات تھی کہ جو رہنما مزاحمتی تحریک چلانے کے ذمہ دار تھے، وہ نہ صرف پیچھے ہٹے، بلکہ انہوں نے راہ فرار بھی اختیار کی اور ان ہی میں سے اب پی ٹی آئی کے مقابل قوت بن کر کھڑے ہیں۔
الیکشن کی آمد پر اب پھر یہی سابق تینوں حکمران پارٹیاں ’’نیا جال لایا پرانا شکاری‘‘ کے مصداق عوام پر اپنے جلسوں میں اور بیانیوں میں نئے جال پھینکنے کی منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہیں۔ آج ان تینوں پارٹیوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ اس ملک میں صدر بھی ان کے رہے ہیں، اور ہیں، وزیراعظم بھی ان کے رہے ہیں، صوبوں میں یہ حکومتوں میں رہے ہیں، لوگ پہلے بھی ان میں سے ہر کسی کے دور حکومت میں حالات سے مایوس خودکشیاں کرنے پر مجبور تھے اور ہیں۔ لوگ وزیر اعلیٰ کے دفتر کے باہر خوکشیاں کر رہے تھے، یہ سب باتیں عوام کے حافظہ سے تو محو ہو چکی ہیں، لیکن اخبارات کے ریکارڈ اب بھی اس طرح کی خبروں کے شاہد ہیں۔ اب بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ، نوجوان، اپنی قسمت اور اپنے اچھے مستقبل کے سہانے خواب، پردیس میں شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
اس وقت مختلف چینلز اور مختلف اینکرز عوامی سروے کرنے میں مصروف ہیں، لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، عوام کا حافظہ اتنا مضبوط نہیں ہے،
ضرورت ہے کہ لوگوں کو اب تک بر سر اقتدار، حکومت میں رہنے والی ان تمام پارٹیوں کے ماضی سے اچھی طرح سے واقف کرایا جائے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ان کی ایک چھوٹی سی دکان بھی ہو، تو کیا اس طرح کا کردار رکھنے والے افراد کو وہ ملازم رکھیں گے، کہ جہاں امانت اور دیانت اور صلاحیت ہی ملازمت کی ضرورت ہو، وہاں وہ دکان پر ہی اپنا صاف ہاتھ صاف کر بیٹھیں، اپنی ڈیوٹی صحیح طرح سے انجام نہ دے کر اور دکان کو بند کرا کے، الٹا دوکان کے مالک کو قرضدار بنا کر دوکان ہی قرق کرا دیں۔ محلات میں مقیم لیڈروں کو لوگ دیکھ چکے، اب مزید دھوکہ کھانے کے بجائے درویش صفت سراج الحق اور ان کی باصلاحیت ٹیم جن پر کوئی مالی اور اخلاقی کرپشن کا دھبا نہیں ہے، کے آزمانے کا وقت ہے۔ پی پی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی، اخلاقی اور مالی کرپشن اور دیگر الزامات کی زد میں اور اپنے بچاؤ کی سیاست میں مصروف ہیں۔ مہنگائی، بے روز گاری، امن و امان کی ابتر صورت حال، آئی ایم ایف کی غلامی، بیرونی قرضے ان سب کے مشترکہ، عوام کے لیے تحفے کے ساتھ ساتھ، اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ’’حکومت سازی‘‘ جیسی مشترکہ پالیسیاں، ان تینوں کے یہ سب مشترکیات ہیں، اور یہی ایک کے بعد دوسرے کی حکمرانی کے تسلسل کا ثبوت ہے۔ اس وقت تینوں ہی پس پردہ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات سیدھے کرنے میں مصروف ہیں۔ ان تینوں پارٹیوں کے مقابلے میں قومی سطح کی پارٹی جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح میدان عمل میں موجود ہے، آزمائے ہوئے لوگوں کے بجائے جماعت اسلامی کو ایک موقع تو ضرور ملنا چاہیے۔ سراج الحق کا عزم ہے کہ اگر انہیں عوام موقع دیں تو وہ اللہ کے بھروسے پر عوام کو سودی نظام سے نجات، بچوں اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول، غربت اور بدامنی سے چھٹکارہ، تعلیم، صحت اور عوامی بہبود کے دیگر منصوبہ سمیت اقوام عالم میں پاکستان کو ایک نمایاں مقام دلانے میں کامیاب ہوسکتے۔ جماعت اسلامی کے پاس وہ ٹیم اور صلاحیت موجود ہے جو پاکستان کو ان مشکل حالات کے گرداب سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔