دہشت گردی میں اضافہ

511

خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے حملے میں 25 فوجی جوان شہید جبکہ 27 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے مطابق 12 دسمبر کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑے پیمانے پر مشکوک سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں، دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا اور دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ اسی طرح کلاچی میں انٹیلی جنس بیسڈ ایک اور آپریشن کیا گیا۔ جس میں دہشت گردوں کا ٹھکانہ تباہ کیا گیا اور 4 دہشت گرد مارے گئے، تاہم فائرنگ کے تبادلے کے دوران میں پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوگئے۔ 12 دسمبر کی صبح درابن کے علاقے میں 6 حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک تھانے کی عمارت سے ٹکرا دی جہاں فوجی اہلکار بھی تعینات تھے۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق خودکش حملے کے نتیجے میں عمارت گر گئی اور 23 فوجی جوان شہید ہوگئے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق تھانے کے ساتھ واقع اسکول کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس واقع کی ذمے داری ماضی کی طرح ایک دہشت گرد تنظیم تحریک جہاد پاکستان کے نام سے قبول کرلی گئی ہے۔ دہشت گردانہ حملوں کے تازہ سانحے میں 27 فوجی جوانوں کی شہادت غیر معمولی واقعہ ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ جن میں سیاسی قائدین پر بھی حملے ہوئے ہیں، جن میں مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق بھی شامل ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے آنے والے انتخابات کے التوا کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں امن قائم نہیں ہوسکا ہے اور دہشت گردی کی وجہ سے آزادانہ انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ہے۔ اس بیان کے پس منظر میں خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کی واپسی انتہائی تشویش ناک ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے قوم نے بہت قربانی دی ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں کوئی برس بھی ایسا نہیں گزرا جب وطن عزیز میں مکمل امن قائم رہا ہو۔ دیگر وجوہ کے ساتھ سب سے بڑی عالمی استعماری طاقتوں بالخصوص امریکا کی افغانستان میں فوج کشی اور امریکی وار اَن ٹیرر ہے۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو امریکی آلہ کار بنادیا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا پرامن خطہ دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں تو امن قائم ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے تازہ واقعے کے بارے میں حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اطلاعات کے مطابق حکومت کے پاس انٹیلی جنس کے اداروں کی جانب سے خبریں موجود تھیں انہوں نے کارروائی بھی کی لیکن ہمارے 27 قیمتی جوان دہشت گردی کا شکار بن گئے۔ ماضی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متعدد فوجی آپریشن ہوئے جس کی سب سے زیادہ قیمت خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں نے دی۔ قوم نے انسانی حقوق کی پامالی اور لاپتا افراد کے سنگین مسئلے کی صورت میں اس کی قیمت بھی دی۔ اندرون ملک مہاجرت کی اذیت کو بھی خیبر پختون خوا کے محب وطن شہریوں نے برداشت کیا اور وطن عزیز کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خوا کی قربانیاں سب سے آگے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد خطے اور علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو خدشہ تھا کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا لیکن امریکی سازشوں کے علی الرغم افغانستان میں طالبان کی مستحکم حکومت قائم ہوگئی اور اس نے اپنی رٹ کو بھی یقینی بنالیا۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ قائم رہا ہے اور اس سلسلے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پر نظر رکھنے کے ذمے دار ادارے اور منصب داران ملک کی داخلی سیاست میں ملوث ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی سلامتی کے امور پر نظر رکھنے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ اپنی داخلی کمزوریوں پر توجہ دینے کے بجائے افغانستان کی حکومت سے معاملات کو خراب کررہے ہیں۔ افغان طالبان نے جس بنیادی شرط پر امریکا سے معاہدہ کیا تھا وہ یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ اس شرط کی بنیاد پر افغان حکومت سے بات کی جانی چاہیے ان کو اس امر پر توجہ دلانی چاہیے کہ پاکستان میں امن افغانستان کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے افغانستان میں امن پاکستان کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل امریکا اور بھارت کی ضرورت ہے اس کے لیے حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔