ہر سال دسمبر کے اوائل میں معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور دیگر عہدیداران اس موقع پر بیانات دیتے ہیں جس میں معذوروں کو معاشرے میں اصل مقام دینے کی بات ہوتی ہے۔ سیمینار، مذاکرات اور واک کا اہتمام ہوتا ہے جس کے ذریعے معذوروں کے مسائل اُجاگر کیے جاتے ہیں، یوں 3 دسمبر کا دن معذوروں کے حوالے سے بہت سے وعدے، عہد و پیماں اور توقعات کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ اس دن محض وعدے ہوتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسائل حل بھی ہوئے ہیں اور بہت سارے حل طلب ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے ریلوے نابینائوں کو تو رعایتی ٹکٹ کی سہولت انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ دیتا تھا مگر دیگر معذوروں کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا تھا۔ نابینائوں کو بھی جو سہولت حاصل تھی اس میں پہلے کمرشل برانچ جا کر درخواست دینا پھر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا اور پھر اس کے بعد کہیں جا کر رعایتی ٹکٹ کا حصول ممکن ہو پاتا تھا۔ پی آئی اے محض نابینا کو نصف ٹکٹ پر سفر کی سہولت دیتی تھی جبکہ وہ تنہا سفر نہیں کرسکتا تھا، یوں معاون کو پورے ٹکٹ پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر تک 1000 اور 500 کے نوٹ یکساں سائز کے ہوا کرتے تھے اور اکثر دھوکے باز لوگ 1000 کے نوٹوں کے درمیان 500 کے نوٹ ملا کر نابینائوں کو فریب دیتے تھے۔ خود میرے ایک نابینا پروفیسر ساتھی کے ساتھ بینک کے عملے نے بھی یہی مکروہ حرکت کی اور جب وہ بینک میں شکایت لے کر گئے تو منیجر ان پر برس پڑا اور کہنے لگا کہ ہم نابینائوں کا اکائونٹ اس لیے نہیں کھولتے کہ وہ بلاوجہ الزام تراشی کرتے ہیں۔ ان صاحب کا مالی نقصان بھی ہوا اور صبر کے سوا چارہ بھی نہ تھا، جب ایسی بہت سی شکایات سامنے آئیں تو میں نے 1999ء میں صدر پاکستان جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، انہوں نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے دورہ کراچی کے دوران مجھے بالمشافہ پندرہ منٹ ملاقات کا وقت عنایت کیا۔ میں نے اس موقع پر نابینائوں کو درپیش مسائل اور چند مطالبات گوش گزار کیے جس پر انہوں نے ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ کیا۔ میں نے جو مسائل سامنے رکھے تھے ان میں نوٹوں کے سائز میں فرق، شناختی کارڈ پر خصوصی افراد کے لیے مخصوص علامت ظاہر کرنے اور اس کے ذریعے ٹرینوں اور ہوائی سفر میں بکنگ کائونٹر پر تمام معذوروں کو رعایت دینے کی سہولت، معذوروں کو پارکوں اور دیگر تفریحی مقامات پر ٹکٹ اسے استثنیٰ دینے، بسوں میں رعایتی ٹکٹ پر سفر کرنے، مکان کی تعمیر کے لیے قرض دینے اور تمام معذوروں کو خصوصی الائونس دینے کی اس روایت کو زندہ کرنے کی استدعا کی تھی جو اموی خلیفہ ولید کے عہد میں رائج تھا۔ جس کے مطابق ’’تمام معذوروں کے روزینے مقرر کیے گئے اور ان کی مدد کے لیے معاونین بھی مقرر کیے گئے‘‘۔ یہ اور ایسے بہت سے مسائل اور مطالبات تھے جو مرحوم جسٹس رفیق تارڑ صاحب کی خدمت میں پیش کیے تھے۔
صدر پاکستان سے ملاقات کے چند ہفتے بعد مجھے ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں ایوان صدر کی طرف سے مختلف محکموں کو معذوروں کو درپیش مسائل اور مطالبات پورے کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ الحمدللہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل حل ہونا شروع ہوئے۔ سب سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نوٹ تبدیل کیے اور تمام نوٹوں کے سائز میں فرق نمایاں کیا، یوں دھوکا دہی کے عنصر کے خاتمے میں خاصی مدد ملی۔ 2010ء میں نادرا نے مخصوص علامت کے ساتھ مفت شناختی کارڈ جاری کیے پھر حکومت کی ہدایت کے مطابق پاکستان ریلوے اور تمام فضائی کمپنیوں نے معذوروں کو شناختی کارڈ دکھا کر رعایتی ٹکٹ جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ البتہ ریلوے نے ایک مہربانی یہ بھی کی کہ اگر معذور خود کو رجسٹرڈ کروالیں تو گھر بیٹھے آن لائن ٹکٹ کی سہولت سے استفادہ بھی کرنے لگے جو ہر معذور کو نصف ٹکٹ کی حد تک حاصل ہے، ہاں مگر نابینا اور اس کے معاون کو گھر بیٹھے یہ سہولت حاصل نہیں اس کے لیے ریلوے بکنگ آفس جانا ہوتا ہے۔ حالانکہ میں نے اس حوالے سے بارہا خط و کتابت کے ذریعے ریلوے کے اعلیٰ حکام کی توجہ مبذول کروائی کہ نابینا آنے جانے کے لیے ویسے ہی کسی کے سہارے کا محتاج ہوتا ہے اس لیے ایک مرتبہ آن لائن رجسٹرڈ کرکے ایسا سافٹ ویئر تیار کریں جس سے نابینا اور اس کے معاون کو گھر بیٹھے آن لائن ٹکٹ کی سہولت حاصل ہوجائے۔
ایک اور مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مجھے خاصی تگ و دو کرنی پڑی، وہ تھا معذوروں کو خصوصی الائونس دلوانے کا مطالبہ۔ میں نے اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دی حکومت کو فریق بنایا، پہلے ٹال مٹول کی گئی اور کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کو بہبودی فنڈ سے بہت سی سہولتیں حاصل ہیں مگر جب میں نے یہ ثابت کیا کہ معذوروں کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں تو حکومت نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مجبوراً یہ اعلان کیا کہ 2016ء کے بجٹ میں خصوصی افراد کے لیے خصوصی الائونس دینے کا اعلان کیا جائے گا اور پھر اسپیشل کنوینس الائونس کے نام سے 1000 روپے ماہانہ خصوصی افراد کو دینے کی منظوری دی گئی۔ یہ رقم بہت کم تھی مگر معذوروں نے یہ سوچ کر کے بارش کا پہلا قطرہ ہے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ حکومت کے حق میں دعائیں بھی دیں۔ 2019ء میں اس الائونس کو دوگنا کرکے 2000 کردیا گیا اور موجودہ بجٹ میں اسے مزید دوگنا کرکے 4000 روپے ماہانہ کیا جاچکا ہے۔
اب ذرا ایک معذور کی حیثیت سے میری صورت حال پر غور کریں، میں بھی پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوں، کالج جانا ہوتا، کسی دفتر جانا ہوتا، یا کسی عزیز واقارب سے ملاقات مقصود ہو یا کسی خوشی یا غم میں جانا ہو، گویا ہر موقع پر نارمل لوگوں کے مقابلے میں پریشانی سے دوچار ہوتا ہوں۔ حکومت معذوروں کو اسپیل کنوینس الائونس کے طور پر 4000 روپے ماہوار دیتی ہے بظاہر تو یہ رقم بہت معمولی سی ہے کسی ایک جگہ ہی آنے جانے میں صرف ہوجاتی ہے مگر پھر بھی شکر الحمدللہ جو کچھ ملا ہے بہت بہتر تھا۔ گزشتہ سال میں ریٹائرڈ ہوا اب محض پنشن پر گزارا ہے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد تو آنا جانا کچھ زیادہ ہی ہوگیا، مگر دوسری طرف اسپیشل کنوینس الائونس ختم کردیا گیا جو ایک انتہائی افسوسناک قدم ہے جب تک آدمی زندہ ہے اس کی پنشن میں یہ الائونس دینا چاہیے بلکہ میں تو یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ خصوصی الائونس تمام معذوروں کو دیا جائے۔ بظاہر یہ چھوٹی سی رقم ہے مگر اس سے کچھ نہ کچھ اشک شوئی تو ہوسکے گی۔ میں تو یہ ہی سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت وقت تمام معذوروں کو تاحیات خصوصی الائونس دینے کا اعلان کرلے تو یہ ایک احسن قدم ہوگا۔ جس سے حکومت کے اخراجات میں تو بہت زیادہ اضافہ نہ ہوگا البتہ نیک نامی بہت زیادہ ملے گی۔ ان شاء اللہ۔ آمین