اے ابن آدم پانی، آگ، ہوا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں مگر پانی جوش مارتا ہے تو سیلاب تباہی مچا دیتا ہے۔ ہوا کا دبائو کم ہوجائے تو سانس اور دمہ کے مریض پریشان ہوجاتے ہیں۔ آگ نہ ہو تو بھوکے مرجائیں مگر جب یہ پھیلتی ہے تو بڑی بڑی عمارتوں کو جلا کر راکھ کردیتی ہے جو اس کی زد میں آجاتا ہے وہ پھر بچ نہیں پاتا۔ بلدیہ کی فیکٹری کا دل دہلا دینے والا واقعہ لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ 250 کے قریب لوگ اس آگ میں جل کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ آج بھی ان کی روح پکار رہی ہے انصاف کب ملے گا اس آگ میں جو چیز سامنے آئی وہ تھی بھتا اور اس کا الزام ایم کیو ایم پر آیا۔ متحدہ کے کچھ کارکن پکڑے بھی گئے مجھے تو فیکٹری کے مالکان بھی مشکوک نظر آتے ہیں جو بھی ملوث ہو اللہ کی لاٹھی تو بے آواز ہے۔ اس کے بعد کریم سینٹر کی مارکیٹ میں آگ لگی اربوں کا نقصان ہوا مگر تاجر برادری نے کیس لڑا اور وہ مارکیٹ دوبارہ سے بنا کر دی گئی۔ اتفاق کی بات ہے میرے بھائی انور خان کے بیٹے کی شادی تھی میں اور میرے بچوں نے کوٹ پینٹ کا ناپ دیا اور 30 ہزار ایڈوانس ادا کرکے پرچی لے لی جس دن اس دکان دار کو مجھے کپڑے دینے تھے اس سے ایک دن پہلے کریم سینٹر میں شارٹ سرکٹ سے زبردست آگ لگ گئی اور میرے 30 ہزار اور کپڑے بھی آگ کی نظر ہوگئے۔ میں نے دکاندار کو فون کیا تو رونے لگا کہ میں تو تباہ و برباد ہوگیا میں آپ کے پیسے کہاں سے واپس کروں بالکل نہیں کرسکتا۔ مجھے معاف کردیں اور میں نے معاف کردیے کیونکہ اللہ کا بھی یہ ہی حکم ہے۔ چند دن پہلے RJ مال میں آگ لگ گئی یہ بھی ایک بڑا تجارتی مرکز ہے، دکانوں کے علاوہ آفس بھی موجود ہیں، اس آگ نے 5 افراد کو نگل لیا، حکومت نے مارکیٹ کو بند کردیا، اس حادثے میں مرنے والوں کے لیے رقم کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ حکومت پہلے 25 ہزار دیتی تھی پھر ایک لاکھ اور اس کے بعد 10 لاکھ دینے کا بھی اعلان ہوا مگر حادثے کے وقت تو تمام اعلیٰ حکام موقع پر موجود نظر آتے ہیں پھر ایک دو دن کے بعد سب خاموش ہوجاتے ہیں۔
ابھی قوم RJ مال کے واقعے کے غم کو نہیں بھولی تھی کہ عرشی مارکیٹ جو کبھی عرشی سینما ہوتا تھا آج وہ عرشی مارکیٹ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نیچے دکانیں اور اس کے اوپر رہائشی فلیٹس موجود ہیں میں اچانک ایک فوم کی دکان میں آگ
لگ گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری مارکیٹ کو لپیٹے میں لے لیا۔ 4 یا 5 افراد لقمہ اجل بنے۔ عرشی شاپنگ میں آتشزدگی سے جہاں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے وہیں عام شہری بھی مالی پریشانی کا شکار ہوگئے۔ مال میں موجود درزی اور جیولری کی دکانوں کے جلنے سے عام شہریوں کے کپڑے میرے کپڑوں کی طرح جل کر خاکستر ہوگئے، اس حادثے میں ایک ٹیلر نعمان بیگ بھی جاں بحق ہوا۔ شاپنگ مال میں جیولرز کی دکانوں میں شہریوں نے لاکھوں روپے کے اپنے طلائی زیورات پالش کرنے، فروخت اور بنانے کے آرڈرز بھی دیے ہوئے تھے۔ شادی کے سوٹ بھی جل گئے۔ صوبائی حکومت کو توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے، کراچی کی بلند عمارتوں میں آتشزدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات حکام کے لیے لمحہ فکر ہیں اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے، غریب مرتا رہے گا۔ عرشی کی آگ اس قدر شدید تھی کہ گرائونڈ فلور پر لگنے کے بعد بالائی منزلوں میں واقع فلیٹوں تک پہنچ گئی اور فائر بریگیڈ کا عملہ کئی گھنٹے بعد اس پر قابو پاسکا۔ واقعہ کی ایک بار پھر کمیٹی بنادی گئی ہے۔ ماضی میں بھی ہزاروں کمیٹی بن چکی ہیں اگر کمیٹی جلد
فیصلہ دے تو ان متاثرین کی داد رسی ہوسکتی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق آگ فوم کے گدوں کی دکان میں لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ جان بچانے کے لیے دیوانہ وار عمارت سے نکلے۔ متاثرہ عمارت میں 250 سے زائد دکانیں اور 450 فلیٹس بتائے جارہے ہیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق عمارت کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ کچھ عینی شاہدین کے مطابق آگ گیس سلنڈر لیک ہونے کی وجہ سے لگی اس سلسلے میں ضروری ہوگا کہ تکنیکی بنیادوں پر وہ تمام پہلو سامنے لائے جائیں۔ شہر میں موجود دیگر عمارتوں کی بھی جانچ پڑتال کی جائے، پرانی اور نئی عمارتوں میں Emergency Exit لازمی قرار دیا جائے، اس وقت بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری عمارتیں ایسی موجود ہیں جن میں ایمرجنسی Exit موجود نہیں ہے۔ محکمہ فائر بریگیڈ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی فوری ضروری ہے اگر اس محکمے کو بلدیہ کے حوالے کردیا جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ کاش حافظ نعیم الرحمن ناظم اعلیٰ کراچی ہوتے اور فائر بریگیڈ کا محکمہ ان کے پاس ہوتا تو کراچی کی عوام کو بڑی تبدیلی نظر آتی مگر چور دروازے سے آنے والے مرتضیٰ وہاب کراچی والوں کا درد نہیں سمجھ سکتے۔