پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت کا ایک خوفناک پہلو آبی جارحیت ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت بھارت پاکستان کو بنجر اور بے آب وگیاہ ملک میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے حامل ملک کو غذائی بحران کا شکار کیا جاسکے۔ غذائی بحران صرف قحط تک محدود نہیں رہتا بلکہ کئی نئے بحرانوں کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت بھارت دریائے چناب کے دائیں کنارے کے معاون دریا مارو صدر پر ایک ہزار میگاواٹ پن بجلی کی صلاحیت رکھنے والے پہلے پن بجلی گھر منصوبے کی تعمیر شروع کر رہا ہے جو کہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہرین کی عدالت میں پہلے ہی پاکستان کے دریاں پر بنائے جانے والے 330 میگاواٹ کے کشن گنگا اور 850 میگاواٹ کے ریتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے ڈیزائن پر قانونی جنگ جاری ہے۔ پاکستان نے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ڈیزائن پر اعتراض کیا ہے جس میں 99 ہزار ایکڑ فٹ کا لائیو ڈیم اسٹوریج ہے اور اس سے ایک ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق بھارت نے دریائے چناب کے دائیں کنارے کے معاون دریا مارو صدر پر 1000 میگاواٹ ہائیڈرو جنریشن پیدا کرنے کی صلاحیت اور99ہزار ایکڑ فٹ تک پانی ذخیرہ کرنے رکھنے والے پہلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام شروع کردیا ہے اور وہ ہوشیاری سے ظاہر کر رہا ہے کہ منصوبے میں صرف 88ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ منصوبہ 1960 میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہو گا۔ تاہم پاکستان نے ڈیڑھ سال پہلے پروجیکٹ کے سپل ویز اور فری بورڈ ڈیزائنز پر سندھ طاس معاہدے کے ضمیمہ ای کے پیراگراف 11 کے تحت معاہدے کے آرٹیکل 9 کی درخواست کردی ہے۔ پاکستان کے سندھ طاس کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے صحافیوںکو تصدیق کی کہ پاکستان اس منصوبے پر کافی محتاط ہے اور آرٹیکل 9 کے تحت اس کے ڈیزائن پر پہلے ہی اعتراضات اٹھا چکے ہے اور پی سی آئی ڈبلیو کی سطح پر مذاکرات مارچ 2024 سے پہلے بھارت کے ساتھ معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت دوبارہ اعتراض اٹھائیں گے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو آبپاشی کے مقاصد کے لیے پاکستانی دریائوں پر 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس مقصد کے لیے 99ہزار ایکڑ فٹ پانی کے ذخائر کے ساتھ پاکل ڈل پروجیکٹ کو مکمل کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کے پاس پاکل ڈل ڈیم میں 99ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور یہ کہ پانی کی مقدار کو اس کے 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کیا جائے۔ لیکن اسپل ویز کے ناقص ڈیزائن کے ساتھ بھارت یہ بہانہ کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ اس کی لائیو ذخیرہ کرنے کی گنجائش 88ہزار ایکڑ فٹ ہے، اس لیے 88ہزار ایکڑ فٹ کے اس حجم کو پاکستان کے دریائوں پر پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کر لیا جائے۔ اگر آرٹیکل 9 کے تحت مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر پاکستانی فریق سندھ طاس معاہدے میں مذکور دیگر کوششوں کو استعمال کرنا شروع کر دے گا۔