معارفِ سعدی (حصہ دوم)

637

(6) دنیا کی حرص وطمع کی بابت شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ایک ایسے تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا، جس کے پاس خدمت کے لیے چالیس غلام اور بار برداری کے لیے ایک سو پچاس اُونٹ تھے، رات کو مجھے اپنے حجرے میں لے گیا اور دماغ چاٹنے لگا: میرا اتنا مال ترکستان میں ہے اور اتنا ہندوستان میں، فلاں فلاں جگہ سے آیا ہوں اور فلاں فلاں ملک میں ابھی جانا ہے، اب صرف ایک آخری سفر باقی ہے، اس کے بعد گھر میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کروں گا، میں نے پوچھا: کون سا کام ہے، کہا: ایران کی فلاں چیز لے کر چین جائوں گا، چین کے برتن روم بھیجوں گا، روم کا ریشم ہند میں بھیجوں گا، ہند کا فولاد حلب میں، حلب کا شیشہ یمن میں اور یمن کی چادریں فارس میں فروخت کرنے کے بعد آرام سے گھر بیٹھ جائوں گا۔ طویل بک بک کرنے کے بعد جب وہ تھک گیا تو کہنے لگا: سعدی تم بھی کچھ کہو، میں نے اُسے یہ قطعہ سُنایا:

آں شنیدستی کہ در صحرائے غور
بارِ سالارے بیفتاد از ستور
گفت چشمِ تنگ دنیا دار را
یا قناعت پُرکند یاخاکِ گور

ترجمہ: ’’شاید تم نے سنا ہو: ایک دفعہ غور کے صحرا میں ایک تونگر خچر سے گرپڑا اور سخت پریشانی کی حالت میں کہنے لگا: دنیا دار کی حریص آنکھ کو دو ہی چیزیں بھر سکتی ہیں: قناعت یا قبر کی مٹی‘‘۔

رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اُس کے جمع کردہ مال میں اُس کا حصہ تو فقط تین چیزیں ہیں: (۱) جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا، (۲) جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا، (۳) یا وہ جو اُس نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا اور وہ اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ وارثوں کے لیے چھوڑ کر (خالی ہاتھ) آخرت کی منزل کی طرف چلا جائے گا‘‘۔ (مسلم)

نیز شیخ سعدی فرماتے ہیں: ’’دَہ درویشے در گلیمے می خُسْپَنْدودوپادشاہ در اقلیمے نمی گُنْجَند‘‘، یعنی ’’دس درویش تو ایک کمبل میں سما سکتے ہیں، مگر دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں سماسکتے‘‘، پس درویش سے پوچھیں، تو کہے گا: یہ کمبل بہت بڑا ہے، دس اور بھی آجائیں تو اس میں سما سکتے ہیں اور بادشاہ سے پوچھیں تو وہ کہے گا: یہ ملک تو بہت چھوٹا ہے، ایسی ہزاروں دنیا اور بھی پیدا ہوجائیں، میرے لیے وہ بھی کم ہیں، سو اصل شے ہوس اور قناعت ہے، جو ہوس کا مارا ہو تو پوری دنیا بھی اس کے لیے کم ہے اور جس میں قناعت ہوتو وہ خود کو پوری دنیا سے زیادہ مال دار سمجھے گا۔

(7) نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’تم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، کیونکہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے‘‘، (مسندِ احمد) عافیت کے معنی یہ ہیں کہ دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلائوں سے سلامتی و حفاظت، لہٰذا، عافیت، دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کو شامل ہے، جس نے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کیا، اُس نے گویا دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مانگ لیں، شیخ سعدی ایک حکایت سے اس کی وَضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایک بادشاہ ایک غلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، چونکہ غلام نے کبھی دریا کا سفر نہیں کیا تھا، رونا پیٹنا شروع کردیا اور کسی طرح خاموش نہیں ہورہا تھا، اس کشتی میں ایک فلسفی بھی تھا، بادشاہ سے کہنے لگا، اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا علاج کرتا کروں،کہا: میں اِسے خاص لطف وکرم سمجھوں گا، فلسفی اُٹھا اور چند مسافروں کی مدد سے اُسے دریا میں پھینک دیا، جب چار غوطے کھا چکا تو بالوں سے اُسے گھسیٹ کر دوبارہ کشتی میں بٹھا دیا، اب اس نے جان بچ جانے پر اللہ کا سو بارشکر ادا کیا اور آرام سے ایک گوشے میں جاکر بیٹھ گیا، بادشاہ نے پوچھا: اے فلسفی! اس میں کیا راز تھا، فلسفی نے کہا: ’’ظلِّ سبحانی! قدرِ عافیت کسے داند بہ مصیبتے گرفتار آید‘‘، یعنی امن وعافیت کی قیمت وہی جانتا ہے جو کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو:

حوران بہشتی را دوزخ بود اَعراف
از دوزخیاں پُرس، کہ َاعراف بہشت است

ترجمہ: ’’حوروں کے لیے تو اَعراف بھی دوزخ ہے اور دوزخیوں کے لیے تو اَعراف بھی جنت ہے‘‘، واضح رہے: اَعراف جنّت اور جہنم کے درمیان ایک مقام کو کہتے ہیں۔

(8) شیخ سعدی احسان وبھلائی اور بدی کے جواب میں عفو ودرگز کی اہمیت اور اس کے فوائدو اثرات کی بابت لکھتے ہیں:

’’میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ ایک بکری کو ساتھ لیے جارہا ہے، میں نے کہا: یہ سب رَسّی کی برکت ہے، ورنہ یہ بھاگ جاتی، اُس نے رسی چھوڑی اور بکری برابر اس کے پیچھے چلتی رہی، میں نے حیرت سے پوچھا: یہ کیا جادو ہے، تو جواب ملا:

نہ ایں ریسماں می بُرد با مَنَش
کہ احسان کمند است در گردَنَش
بداں را نوازش کن، اے نیک مرد
کہ سگ پاس دار دچونانِ تو خورد

ترجمہ: ’’اِسے میرے پیچھے کھینچنے والی رَسِّی نہیں، بلکہ احسان ہے، جس کا پھندا اِس کی گردن میں پڑا ہے، بُرے لوگوں کو احسان سے قابو کرو، کہ کتا بھی تمہاری روٹی کھاکر تمہارا بن جاتا ہے۔ یعنی نیکی واحسان کی تاثیر سے بے زبان جانور بھی تابع فرمان ہوجاتے ہیں، پس اگر کسی بگڑے ہوئے انسان اور بدترین دشمن کے ساتھ مسلسل حسنِ سلوک اور اعلیٰ درجے کی نیکی کا معاملہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں دشمنی اور عداوت مَحبت ومَودّت سے بدل جاتی ہے، سخت سے سخت دشمن بھی آخر کار قدموں میں آجاتا ہے اور گرمجوش دوست کی طرح برتائو کرنے لگتا ہے، کیونکہ یہی انسانی فطرت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اورنیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں، تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، پس تم دیکھو گے: تمہارے اور جس شخص کے مابین عداوت تھی، (حُسنِ سلوک کی بدولت) وہ تمہاراجگری دوست بن گیا ہے‘‘، (فصلت) اِسی ضمن میں ایک حکایت یہ بھی ہے:

’’ایک بادشاہ شکار کھیلتے کھیلتے ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں ایک گدھا کیچڑ میں دھنسا ہوا تھا اور دہقان وہاں بیٹھا شاہِ وقت کو کوس رہا تھا اور اس کے متعلق نازیبا کلمات بک رہا تھا، ایک ملازم نے اُس کے قتل کا مشورہ دیا، لیکن عالی ظرف بادشاہ نے قبول نہ کیا، بادشاہ اس دَہقان کے پاس گیا، اس کا گدھا دلدل سے نکلوایا اور اُسے انعام واکرام سے مالامال کرکے آگے نکل گیا، شیخ سعدی کہتے ہیں:

بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردے، اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا

ترجمہ: ’’برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان کام ہے (یعنی اس سے تو نفسِ امّارہ کو تسکین ملتی ہے)، اگر (باکمال) مرد ہو تو جو تم سے برا سلوک کرے، اُس کا بدلہ اچھے سلوک سے دو، اِسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ عزیمت والے کاموں میں سے ہے‘‘، (الشوریٰ:43) اِس بیت میں نبی کریمؐ کی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے: ’’اُس شخص کے ساتھ نیکی کرو جس نے تمہارے ساتھ بدی کی ہے‘{‘{ِ،۔ (اَلجَامِعُ الصَّحِیْح لِلسُّنَنِ وَالْمَسَانِیْد)

(9) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ’’عزت کا معیار علم وفضل اور فہم وفراست ہے، نہ کہ بہترین لباس، اعلیٰ سواری اور مال و دولت کی کثرت، پس کسی جاہل کی دولت کو دیکھ کر اُس سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، میں نے ایک بیوقوف کو دیکھا: وہ بیش قیمت لباس پہنے ہوئے عربی گھوڑے پر سوار جا رہا تھا اور اس نے سر پر مصری ریشمی عِمامہ باندھا ہوا تھا، کسی نے پوچھا: سعدی!یہ ریشمی لباس اِس بے علم حیوان پر کیسا لگ رہا ہے، میں نے کہا:

قَدْ شَابَہَ بِالْوَریٰ حِمَارُ
عِجْلًا جَسَداً لَّہ خُوَار

ترجمہ: ’’بے شک گدھا انسانوں کے مشابہ ہوگیا ہے (یا) یہ ایک ڈکرانے والا بچھڑا ہے‘‘۔

(10) نبی کریمؐنے فرمایا: ’’(حقیقی) پہلوان وہ نہیں جو اَکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ (حقیقی) پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے‘‘، (بخاری) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ایک بُزرگ نے ایک پہلوان کو غصے بھرا دیکھا، غیظ وغضب کے عالَم میں اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا، بزرگ نے پوچھا: اس نے ایسی حالت کیوں بنائی ہوئی ہے، لوگوں نے کہا: فلاں آدمی نے اِسے گالی دی ہے، اُنہوں نے فرمایا: ’’ہزار مَن سنگ بر میدارد، وطاقتِ سخنے نمی دار‘‘، یعنی یہ کمینہ ہزار مَن کا پتھر اُٹھا لیتا ہے، لیکن مخالف کی ایک بات برداشت نہیں کرسکتا:

لاف سرپنجگی ودعوائے مردے بگزار
عاجزِ نفسِ فرومایہ، چہ مَردے چہ زنے
گرت از دست بر آید، دہنے شِیر کن
مَردے آں نیست،کہ مشتے بزنے بردہنے

ترجمہ: ’’طاقت وری کی شیخی بگھارنا اور مردانگی کا دعویٰ چھوڑدے، کمینے نفس سے عاجز مرد وعورت دونوں برابر ہیں، اگر تجھ سے ہوسکے تو تو کسی کا منہ میٹھا کر، مردانگی یہ نہیں ہے کہ کسی کے منہ پر مکا ماردے‘‘۔

(11) شیخ سعدی فرماتے ہیں: سلاطین واُمراء کی صحبت اور اُن کی ہم نشینی سے جس قدر ہوسکے، پرہیز کرنا چاہیے، دریا میں اگر چہ فائدے بہت ہیں، لیکن سلامتی کنارے پر رہنے میں ہے۔

بادشاہوں کی ہم نشینی سے جہاں لعل وجواہر حاصل ہوتے ہیں، وہیں سر چلے جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، لومڑی سے کسی نے پوچھا: تم نے شیر کی ملازمت کیوں اختیار کی، کہا: اس لیے تاکہ بچا کھچا شکار ملتا رہے اور اس کی پناہ میں ہر گزند سے محفوظ رہوں، پوچھا: تم شیر سے دور دور کیوں رہتی ہو، کہا: میں اس کی گرفت سے بھی ڈرتی ہوں، دانائوں نے کہا ہے: بادشاہوں کی تلوُّن مزاجی (مزاج کے اتار چڑھائو) سے ڈرنا چاہیے :

گاہے بہ سلام برنجند
وگاہے بہ دشنامے خلعت دہند

ترجمہ: ’’یعنی کبھی تو سلام پر تیور بگڑ جاتے ہیں اور کبھی دشنام پر بھی خِلعت سے نواز دیتے ہیں‘‘۔

(12) اطاعتِ الٰہی کے ثمرات کی بابت لکھتے ہیں: ایک بادشاہ نے اپنے وزیرِ خزانہ سے کہا: ہمارا فلاں ملازم بڑا باادب، فرماں بردار اور خدمت گزار ہے، اس کا مشاہرہ دوگنا کردو، ایک صاحبِ دل نے یہ بات سُنی تو مست ہوگیا اور جھوم کر کہنے لگا: اللہ کے حضور اس کے بندوں کے مراتب کی بھی یہی مثال ہے، جس درجے کی اطاعت وبندگی ہوتی ہے، اُسی درجے کا ثمرہ بصورتِ قرب عطا کیا جاتا ہے:

مہتری در قبولِ فرمان است
ترک فرماں دلیلِ حرماں است

ترجمہ: ’’ فرمان کی تعمیل سے سرداری ملتی ہے اور نافرمانی محرومی کا سبب بنتی ہے‘‘۔