عوام الناس اور نئی نسل کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ محسن پاکستان کا خطاب پانے والے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایسا کیا جرم کیا تھا جو ان کے ساتھ ایسا غیر شائستہ سلوک کیا گیا دراصل ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بیرون ممالک ایٹمی مواد فروخت کیے ہیں جبکہ یہ کام کسی ایک شخص کے لیے ناممکن تھا پھر بھی ان کو مورد الزام ٹھیرایا گیا اور ثبوت کے طور پر ایک پرنٹیڈ شاپر پیش کیا گیا جس پر اسلام آباد کے اس ٹیلر کا نام اور پتا درج تھا جس سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کپڑے سلواتے تھے جو اس بحری جہاز کے ایک کنٹینر سے برامد ہوا تھا جو ملائشیا سے ایٹمی ساز و سامان لے کر چلا تھا جب یہ جہاز دبئی کی بندرگاہ پر پہنچا تو بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ایک مخبر نے خبر دی کہ اس جہاں کے فلاں فلاں کنٹینر میں ایٹمی ساز و سامان موجود ہے اس وقت جہاز دبئی سے روانہ ہو چکا تھا اور لیبیا کی جانب گامزن تھا پھر جہاز کے مالک کے حکم پر اس جہاز کا رخ اٹلی کی طرف موڑ دیا گیا اور جب اٹلی کی بندرگاہ پر جہاز کی تلاشی لی گئی تو معلومات درست ثابت ہوئیں ایک کنٹینر میں ایٹمی ساز و سامان کے ساتھ ایک پرنٹڈ شاپنگ بیگ بھی برامد ہوا جس میں ایٹمی دستاویز تھیں اس شاپر پر اس ٹیلر کی دکان کا پتا درج تھا جس سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کپڑے سلواتے تھے یہ شاپر ملائشیا کیسے پہنچا پھر کنٹینر میں کس کے حکم پر رکھا گیا بعد میں یہ دستاویزات صدر پرویز مشرف کو دکھائی گئیں اور ثبوت کے طور پر شاپنگ بیگ رکھا گیا۔
ہم کو اس سے غرض نہیں ہم اس کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نادانی ہی تصور کرتے اگر ایک دانائی والا واقعہ رونما نہ ہوتا ہوا کچھ یوں کہ جب بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان سے ایٹمی مواد بیرونی ممالک (ایران، لیبیا، شمالی افریقا) منتقل کیا جارہا ہے تو حکومت پاکستان نے اس میں بہتری جانی کہ اس کا رخ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف موڑ دیاجائے اب چونکہ معاملہ مملکت کا تھا چنانچہ ڈاکٹر عبدالقریرخان پر دباؤ ڈالا گیا کہ یا تو وہ اپنے جرم کا اعتراف عوام کے سامنے یعنی ٹی وی پر آ کرکریں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں جس میں کورٹ مارشل یا بین الاقوامی اداروں کو سپردگی بھی ممکن تھی ڈاکٹر صاحب نے یہی بہتر جانا کہ قوم کے سامنے اعتراف کر کے ملک کو کسی بڑی مصیبت سے بچائیں پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان ’’ون ٹو ون‘‘ ملاقات میں معاملات طے پا گئے اور ڈاکٹر صاحب اعترافی بیان دینے کے لیے رضا مند ہو گئے۔
04اپریل 2004 کی سہ پہر پی ٹی وی اسلام آباد کے اسٹوڈیو میں کیمرے کے سامنے ڈاکٹر صاحب کو بٹھا دیا گیا اور پیرامیٹر پر وہی تحریر درج تھی جو ان کو پڑھنا تھی (پیرا میٹر وہ اسکرین ہوتی ہے جو کیمرے کے سامنے اسکرپٹ دکھاتی ہے لیکن وہ کیمرے میں ریکارڈ نہیں ہوتی اس لیے دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے کہ بولنے والا بغیر دیکھے زبانی بول رہا ہے) عین وقت پر ڈاکٹر صاحب نے پیرامیٹر استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور اسکرپٹ اپنے سامنے رکھ کر پڑھنا شروع کر دیا ڈاکٹر صاحب کے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ان کے دوست و احباب سمجھ لیں کہ وہ کسی اور کا تحریک کردہ اسکرپٹ پڑھ رہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب بولنے میں اتنے محتاط ہیں تو ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اتنے اہم کاغذات اس شاپر میں رکھ کر روانہ کریں گے جس میں نہ صرف پاکستان کا نام درج ہو بلکہ اسلام آباد کا پورا پتا بھی تحریر ہو؟؟ ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد ملک کے لیے جو خطرات تھے وہ تو ٹل گئے تھے مگر ان کی سپردگی کا خطرہ لاحق تھا؟ پھر جب صحافی حضرات نے جنرل مشرف کی توجہ اس جانب کرائی تو صدر مملکت جنرل مشرف نے کہا ’’دنیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے درمیان میں ہوں‘‘ آخر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وہ الفاظ جو انہوں نے اعترافی بیان کے بعد ڈان نیوز کے اینکر کے سوال کے جواب میں ادا کیے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ’’میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جو کچھ بھی کیا ملک کی مفاد میں کیا‘‘۔