سرکاری ملازمتوں پر پابندی اور عدالتی حکم کی دھجیاں

508

سندھ ہائی کورٹ نے ایک سے پندرہ گریڈ تک کی سرکاری ملازمتوں پر پابندی حکم برقرار رکھا مگر اُسے دوران سماعت علم ہوا کہ اس کے حکم امتناع کے باوجود ’’سیسی‘‘ میں سرکاری ملازمتیں دی جارہی ہیں اور یوں ہی وکیل موصوف فروغ نسیم نے عدالت کو خبر دی کہ محکمہ ٹرانسپورٹ میں ایک ایس او نے 40 نوکریاں جاری کردیں، عدالت کے پاس تلملانے اور برہمی کا اظہار جو اختیار تھا اُس نے پوچھ گچھ کی کہ جب حکم امتناع جاری ہوچکا تو کیسے سرکاری نوکریاں فراہم کیں اور تنخواہیں جاری کیں۔ پابندی کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سماعت 15 جنوری 2024ء تک ملتوی کردی۔ صوبہ سندھ میں 1970ء تک سرکاری نوکری معیوب اور شان کے خلاف سیاست دان اور وڈیرے سمجھتے رہے جب پی پی پی کی حکومت آئی تو اس نے کوٹا سسٹم کے ذریعے میرٹ کو دیہی و شہری کی تقسیم دے کر دیہی علاقے کے افراد کے سرکاری نوکریوں کی راہ کشادہ کیں اور ڈومیسائل نامی سسٹم کے ذریعے دیہی علاقہ کے ایک طبقہ کو یوں محروم کیا گیا کہ اس کا حصول جوئے شیر جیسا بنادیا گیا۔ یوں ہی دوسری طرف اندرون سندھ کی یونیورسٹیوں میں اس مظلوم طبقے کی تعلیم کے دروازے مارکٹائی کے ذریعے بند کردیے۔ اس دور میں میرٹ کے ہاتھ پیر باندھ کر سیاست دان وڈیروں، کامریڈوں کی نااہل کھیپ سرکار کی مسند پر لابٹھایا گیا اور عذر تراشا گیا کہ احساس محرومی دور کرنے یہ عارضی بندوبست ہے مگر اب تک اس کو ایسا عارضہ ہوا کہ جس کا علاج ہی نہ کیا جاسکا۔ جب سرکاری نوکریوں کے ٹھاٹھ باٹھ لوٹ کھسوٹ، ان نااہلوں کے منہ کو لگی تو انہوں نے جانا کہ سرکار کی نوکری تو بادشاہی ہے تو پھر تو چل میں آیا۔

سیاسی پارٹی کی حمایت سرکاری نوکری قرار پائی تو ایم این اے، سینیٹرز، ایم پی اے، پارٹی عہدیداروں کی ملازمتوں کے کوٹے مقرر ہوئے اور شہری دیہی کوٹا کی بھیانک صورت حال بن گئی۔ اب کوٹا حکمراں پارٹی کا یوں ہی قرار پایا جیسا دیہی کوٹے کے حوالے سے تھا اور یہ جملہ کہا جانے لگا کہ پرائی کھیتی کو کون پانی دیتا ہے۔ یوں ہی سرکاری ملازمتوں سے اپنے ووٹروں، حمایتیوں، چمچوں کو سیراب کیا جانے لگا۔ اور بچ جانے والی سرکاری نوکریاں فروخت کی جانے لگیں۔ ضرورت مندوں نے جو میرٹ سے عاری تھے خریدار بن گئے، سرکاری ملازمتوں کے خالی آرڈر، حصہ بقدر جثہ حکمران پارٹی کے احباب کو ملنے شروع ہوئے، انہوں نے رقم بٹوری اور ملازمت کو پُر کیا اور جوائننگ ہوگئی، کاغذات کی فارملٹی چشم پوشی سے پُر کی جانے لگی اور اہم ترین اداروں تک میں جعلی سرٹیفکیٹ سے ملازمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہ رہی۔ ملازمتوں کی فروخت سے خراج خوب ملنے لگا۔ کام بڑھا تو دلالوں کا گروہ میدان میں اُتر آیا۔ باقاعدہ نرخ ملازمت مقرر ہوئے جو ایک سال کی تنخواہ کے برابر معاوضے کے ہوتے تھے، جو اب بڑھ کر لاکھوں روپے سے کروڑوں روپے تک جا پہنچے ہیں کیوں کہ ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور نوکریاں شارٹ ہوگئی ہیں۔ محکمہ اوور لوڈ ہوگئے ہیں تو پھر شاطر دلال نیا جال لے آئے ہیں وہ ملازمت کی پیشگی بکنگ کرتے ہی قاصد کی ملازمت کے نرخ بھی پانچ لاکھ روپے ہیں وہ متعلقہ محکموں کی کالی بھیڑوں سے مل کر جعلی ملازمت کے آرڈر نکلوا کر سرکار کا ملازم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں ڈیوٹی پر جانے کی ضرورت نہیں بس گھر بیٹھے تجھے تنخواہ مل جائے گی اور اُس کے بینک اکائونٹ میں تنخواہ کے برابر رقم جمع کراکر مطمئن کردیا جاتا ہے۔ وہ پہلی تاریخ کو تنخواہ لے کر خوش ہوجاتا ہے اور چند ماہ یوں گیم چلایا جاتا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ نوکریوں پر پابندی لگ گئی ہے۔ یہ ختم ہو تو پھر تنخواہ شروع یہ کار بد پورے سندھ میں زور و شور سے شروع ہے یہ دلال بھی حکمران پارٹی کے آشیر باد کے حامل ہیں یہ خوب لوٹ رہے ہیں۔ نوکریوں کی فروخت کا دھندہ خوب کمائی کا دھندہ ہے۔ جو نوکری کی قیمت دلال کو دیتے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا قانونی کارروائی ثبوت مانگتی ہے جو لٹنے والا کہاں سے لائے، یہ کاروبار قاصد کی ملازمت سے لے کر پبلک سروس کمیشن تک خوب جاری و ساری ہے اور دھڑلے سے ہورہا ہے۔ مگر اہم پوسٹیں صرف اپنوں کے لیے ہیں۔

پی پی پی کو این آر او کے تحت صوبہ سندھ میں جو پندرہ سالہ دور حکومت کا عطیہ ملا اس دورانیے میں پی پی پی نے سرکاری نوکریوں کی لوٹ سیل لگائی۔ نئی نئی آسامیاں پیدا کیں اپنے لوگوں کو اہم عہدوں پر سمویا اور بچی کھچی نوکریاں فروخت کا سامان کرکے خوب فنڈ سمیٹا۔ ایک باخبر کے بقول اتنی نوکریاں بنائیں اور بانٹیں گئیں کہ 20 سال تک سرکاری محکموں کو ملازموں کی ضرورت ہی نہ ہوگی ہر جگہ ہائوس فل کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ ان ملازمتوں کی بھرمار سے پی پی پی نے جہاں اپنے ہمدردوں کو مستحکم کیا وہاں ملازمت کی رسی سے باندھ لیا۔ اور یوں صوبہ سندھ میں کسی اور پارٹی گروہ کی حکومت اگر آئی تو کل پرزے سرکاری پی پی پی کے اشارے پر کام کریں گے۔ روڑے ان کے حکم میں اٹکائیں گے اور مشکلات کا باعث بنیں گے اور خدانخواستہ سیاسی ضرورت کے تحت پی پی پی نے ان کو استعمال کرنے کی ضرورت چاہی تو ان سے سول نافرمانی کا کام لے کر صوبائی حکومت کے نظم و نسق کو مفلوج کرنے کا کام بھی لے سکے گی۔ اور ایک حلقہ اس خدشے کا بھی شکار ہے کہ پی پی پی اپنی بھرتی کردہ سرکاری ملازمین سے وہ کام لے تو نہیں سکے گی جو شیخ مجیب الرحمن نے مشرق پاکستان میں سرکاری ملازمین و انتظامیہ سے لیا کہ وہ ان کے حکم پر عمل کررہے تھے اور پاکستان کے حکمرانوں کے حکم کی کوئی شنوائی نہ تھی، کوٹا سسٹم کا کھیل جو 1971ء سے شروع ہوا نصف صدی میں یوں عروج پایا گیا کہ سندھ کی بیورو کریسی اس کی مٹھی میں بند ہے اور نظم و نسق کا ریمورٹ کنٹرول اس کے پاس ہے، عدلیہ کے احکامات بے توقیر ہونا اس کی علامت ظاہرہ ہے، ہر سو جیالہ راج ہے، سرکار میں!

سینئر صحافی محمد انور کی ایک چشم کشا رپورٹ آئینہ دار ہے کہ پیپلز پارٹی کی 15 سال اقتدار میں رہنے والی حکومت نے کراچی کی اہم آسامیوں پر چن چن کر غیر مقامی افسران کو نہ صرف بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ضلعی بلدیاتی اداروں بلکہ ضلعی انتظامیہ کی ڈسٹرکٹ و اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر اہم آسامیوں پر تعینات کیا تھا اس مقصد کے لیے سندھ یونیفائیڈ گریڈ سروسز کونسل کی 175 اسامیوں کو مختلف سروسز میں ضم کردیا تھا جس کے نتیجے میں اب کراچی کے 25 ٹائون میونسپل کارپوریشنز میں غیر مقامی افسران کی غیر معمولی تعداد اہم فرائض انجام دے رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان غیر مقامی افسران کو کراچی کا ڈومیسائل جاری کرنے کی ذمے داری سے بھی نواز دیا گیا ہے، اس صورت حال اور غیر مقامی افسران کو کھپانے سے 3 درجن سے زائد مقامی افسران دو سال سے تعیناتی کے منتظر ہیں اور حکومت ان کو گھر بٹھا کر تنخواہ دے رہی ہے یہ بھرتی کا کمال علامت زوال ہے۔