سندھ پولیس کی کارستانیاں

644

محکمہ پولیس جو کہ خالصتاً جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی بیج کنی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کے ذریعے انہیں بھرپور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں انہیں بہترین سازو سامان، اسلحہ موبائل، دفاتر ودیگر سہولتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے جو کہ ان کی بنیادی ضرورت بھی ہے لیکن بدقسمتی سے جرائم کی روک تھام کا یہ اہم ادارہ خود جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنتا جا رہا ہے گو کہ پورے پاکستان میں محکمہ پولیس کے خلاف عوام کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کے کرتوت اور لوٹ مار اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں محکمہ پولیس کے خلاف شکایات اور ان کی جرائم کی وارداتیں جس تیزی کے ساتھ تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہیں وہ ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے ان شکایات پر شعبہ جاتی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کالی بھیڑوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کی وارداتوںاور کارروائیوں میں مستقل بھی اضافہ ہورہا ہے جس کی وجوہات یہ ہیں کہ محکمہ پولیس میں اقربا پروری اور سیاسی اثرر سوخ کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی بہت بڑی تعداد میں بھرتی کی گئی ہے اور محکمہ پولیس میں شامل ان کالی بھیڑوں کی لوٹ مار کی خبریں زد عام ہیں۔ یہ عناصر اپنی وردی اور عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور انہیں کسی کی کوئی پروا بھی نہیں ہے۔ قانون کا محافظ جب خود ہی قانون کی دھجیاں اُڑانے لگ جائے تو پھر ایسے معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے ایسے حالات اور ماحول میں عام آدمی کو کیسے عدل اور انصاف مل سکتا ہے۔

سندھ پولیس کی جانب سے کراچی سے لیکر کشمور تک عوام اور سائلین کو پریشان اور ان سے لوٹ مار کیے جانے کی وارداتوں میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور دیدہ دلیری کے ساتھ یہ کالی بھیڑیں اپنی وارداتوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس کی تازہ مثال سپر ہائی وے سکرنڈ کے قریب پاکستان کی قومی ٹیم کے دو قومی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین کو کراچی سے ملتان جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی لوٹ مار اور ان سے بھاری رشوت کی وصولیابی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے ان دو کرکٹر کو کراچی سے ملتان کا سفر سڑک کے ذریعے کرنا مہنگا پڑگیا اور وہ دونوں قومی ہیرو سکرنڈ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ سکرنڈ پولیس کے ان دو پولیس اہلکاروں نے دونوںکھلاڑیوںکی شہرت اور مقام اور اپنے انجام کی پروا کیے بغیر دیدہ دلیری کے ساتھ ان سے 12ہزار روپے طلب کیے اور ان سے آٹھ ہزار روپے رشوت وصول کی۔ قومی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین نے پولیس اہلکاروں کو آگاہ کیا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہیں لیکن ان ظالم پولیس اہلکاروں نے بھرپور اور روایتی رعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا رحم نہیں کیا اور آٹھ ہزار روپے ان سے رشوت وصول کری۔ سوشل میڈیا پر صہیب مقصود نے اپنے ٹوئٹ میں انکشاف کیا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار کراچی سے ملتان بزریعہ روڈ سفر کیا لیکن سندھ پولیس اتنی کرپٹ ہے کہ ہر 50کلو میٹرکے بعد گاڑیاں روک کر رشوت مانگی جاتی اور پیسے نہ دینے پر پولیس اسٹیشن لے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رشوت کے پیسے دیے جانے کے باوجود 50 کلو میٹر کے بعد اگلے پولیس اسٹیشن کے پولیس اہلکار دوبارہ رشوت اور پیسے مانگتے ہیں۔

قومی کرکٹر کے ساتھ سندھ پولیس اہلکاروں کی اس لوٹ مار سے جہاں بین الاقوامی سطح پر ہماری تضحیک ہوئی ہے وہاں پوری قوم کے سر بھی شرم سے جھک گئے ہیں۔ قوم کے ہیروز کے ساتھ پولیس کا اس طرح کا شرمناک رویہ ناقابل برداشت ہے۔ پولیس ان ہیروز کے ساتھ یہ کچھ کر رہی ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا حال اور سلوک کیا جاتا ہوگا۔ صہیب مقصود کے ٹوئٹ کے بعد آئی جی سندھ رفعت مختار کی ہدایت پر واقعے کی جانچ پڑتال کی گئی اور قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے قومی شاہراہ پر رشوت لینے کے الزام میں چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے لاک اپ کردیا گیا اور چاروں اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایچ او سکرنڈ اور ہیڈ محررکو بھی معطل کردیا گیا ہے۔ پولیس کی یہ کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی پیش آنے والے مختلف واقعات پر ان کالی بھیڑوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملہ ٹھنڈا ہونے پر کیس دب جاتا اور معافی تلافی کے بعدیہ عناصر پھر دوبارہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی کارروائیوں اور سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے اور ان کی لوٹ مار کو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔

محکمہ پولیس میں آئے روز بہتری اور ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے اخبارات میںخبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن محکمہ پولیس میں سدھار کے کوئی آثا ر نظر نہیں آرہے ہیں۔ محکمہ پولیس جہاں اوپر سے لیکر نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے اور لوٹ مار کی ایسی داستانیں ہیں کہ الامان الحفیظ اگر کسی عام آدمی کے ساتھ کوئی حادثہ، واقعہ، چوری، ڈکیتی، رہزنی ہوجائے تو پولیس کے رویہ کی وجہ سے 80فی صد افراد اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاتے کیونکہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدارکے مصداق اس مظلوم کی داد رسی کے بجائے تھانے میں موجود ڈیوٹی آفیسر اس کی جیب میں بچی جمع پونجی بھی لے مرتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرین کی اکثریت اس زحمت سے اجتناب برتے ہیں اور تھانے میں چوری ڈکیتی رہزنی کی وارداتوں کی ایف آئی آر اور اطلاع کرنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔ پولیس کے تھانے عوام کی داد رسی کے بجائے لوٹ مار میں مصروف ہیں اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے اور عوام کی داد رسی کے لیے خوشنما اعلانات کے سوا کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ محکمہ پولیس اگر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور کسی بھی قسم کا سیاسی دبائو قبول نہ کیا جائے اور مکمل اور شفاف انکوائری کے بعد انہیں ملازمت سے برطرف کیا جائے تاکہ آئندہ کسی اہلکار کو ہمت اور جرأت نہ ہوسکے کہ وہ خود قانون کی دھجیاں بکھیرے اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کو پریشان کرے۔