’’میں اور اردو‘‘

597

اردو میری مادری زبان ہے نہ پدری! میں نے جب بولنا سیکھا تو میں اردو سے لابلد تھا۔ میرے کان اور زبان اردو سے نا آشنا تھے۔ میں گھر میں، گلی میں، محلے میں، حتی کہ اسکول میں چار پانچ سال تک اس کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں تھا۔ نہیں معلوم کب کہاں کیسے اردو سے تعلق بنا۔ بس اتنا یاد ہے کہ گھر میں والد محترم کی سو ڈیڑھ سو کتابوں کی لائبریری میں نوے فی صد کتابیں ان دو زبانوں میں نہیں تھیں جن سے میں آشنا تھا۔ ایک دن میں نے بے خیالی میں الماری سے ایک کتابچہ نکالا۔ نام تھا ’’سلامتی کا راستہ‘‘! میں نے بلا ارادہ ہی اسے پڑھنا شروع کردیا۔ یہ کسی سید ابوالاعلی مودودی صاحب کی تقریر کی کتابی صورت تھی۔ کتاب نے مجھے سلامتی کی راہ سجھائی۔ مجھے احساس ہوا کہ کتاب تو ہے ہی عمدہ، اس کی زبان (اردو) تو میری محسن ہے کہ اس کی وساطت سے میں اس کتاب کو پڑھ کر سلامتی کے راستے کو جان سکا۔ اسی دن سے مجھے یہ زبان اپنی دونوں دیگر زبانوں سے زیادہ اچھی لگنے لگ گئی! میں نے چپکے چپکے ابو کی لائبریری سے کچھ اور کتابیں بھی پڑھنی شروع کردیں۔ لیکن شروع میں میں جو بھی کتاب لیتا وہ اپنی عمر اور قد کاٹھ کے حساب سے لیتا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے نبیوں کے قصے (قصص الانبیاء) بھی اردو میں ہی پڑھے جو مجھے بہت اچھے لگے۔ نبیوں کے حالات نے مجھے اللہ کے برگزیدہ بندوں کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔

اردو کے ساتھ میرے گہرے تعلق کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دوسری کلاس تک میں نے سندھی میڈیم میں پڑھا اور تیسری کلاس سے میں اردو میڈیم میں چلا گیا۔ تیسری کلاس میں جب بھی املا لکھوائی گئی میری املا کی کبھی کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرا کتاب سے تعلق بڑھتا گیا۔ جیسے جیسے یہ تعلق بڑھا میری اردو سے دوستی بھی بڑھتی گئی۔ میں نے اللہ کے کلام کے ترجمے اور اکثر تفسیریں اردو میں ہی پڑھیں۔

قرآن کی دور حاضر کی شاہکار تفسیر بھی اردو میں ہی ملی۔ آگے چل کرکچھ بلکہ بہت کچھ عربی اور انگریزی سے بھی حاصل ہوا لیکن جو کچھ اردو کے واسطے سے ملا وہ باقی سب زبانوں میں ملنے والے علم سے کئی درجے زیادہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ جدید علوم کی زبان انگریزی اور اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی زبان عربی ہے۔ عربی کا مقام ان دونوں کی وجہ سے بہت بلند ہوگیا ہے۔ لیکن اردو کی چاشنی، مٹھاس اور لطف بھی بہت عمدہ ہے۔ عربی اور انگریزی مجھے باقاعدہ سیکھنی پڑی۔ جبکہ اردو کے لیے مجھے کچھ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ چپکے چپکے میرے معمولات میں شامل ہوتی گئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اردو نے مجھے عربی سیکھنے میں آسانی کردی۔ مجھے پشتو نہیں آتی، بلوچی نہیں آتی لیکن پختون اور بلوچ بھائیوں سے اردو کے ذریعے رابطہ ہو جاتا ہے۔

اردو میرے لیے رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو مجھے بہت عزیز ہے۔ مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مجھے اس سے بہتر کوئی اور زبان نہیں لگتی۔ کاش یہ جدید سائنسی اور عصری علوم کی زبان ہوتی، میرے اسکول کالج یونیورسٹی کی تدریسی زبان ہوتی، میرے دفتر کی زبان بھی ہوتی، میری عدلیہ کی زبان بھی ہوتی، میرے قانون کی زبان بھی ہوتی۔ اردو اتنی وسیع الظرف ہے کہ اس میں نحوی قواعد و ضوابط کو قائم رکھتے ہوئے تقریباً ہر زبان کے الفاظ کو اپنے اندر سمونے کا حوصلہ اور پوری صلاحیت موجود ہے۔ سنجیدہ کوشش سے اردو کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بنایا جاسکتا ہے۔ انگریزی کی مرعوبیت کا شکار مغرب کی ذہنی غلام اشرافیہ اس خوبصورت اور وسیع الظرف زبان کو اس کا اصل مقام دینے میں بڑی رکاوٹ ہے۔