بڑے شہروں میں عموماً جرائم کے واقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں اس پر پولیس حکام اور حکومتیں یہ کہتے ہیں کہ بڑا شہر ہے جرائم تو ہو ہی جاتے ہیں۔ لیکن دنیا کے دسویں بڑے شہر کراچی میں نہ صرف جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد میں رفتہ رفتہ پولیس والوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی میں یہ مسئلہ برسہا برس سے رہا ہے کہ یہاں مقامی پولیس نہیں ہوتی۔ پہلے اس غیر مقامی پولیس کے نام پر ایم کیو ایم نے سیاست کی اور پنجابی اور پختون پولیس افسران کو نشانہ بنایا اس بنیاد پر ایم کیو ایم نے نفرت کی سیاست کی تھی اور اپنے کچھ افسروں اور جوانوں کو بھی پولیس میں بھرتی کروایا جو بعد میں خود بھی غیر قانونی اقدامات میں ملوث نکلے۔ اسی طرح اب جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کو خصوصی نشانہ بنا کر مختلف شہروں اور دیہات سے اپنے کارکنوں اور ہمنوائوں کو لا کر پولیس اور سندھ حکومت کے دیگر محکموں کے علاوہ بلدیاتی اداروں میں بھی کھپا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں یہ احساس شدت سے بڑھ رہا ہے کہ اس شہر کو پولیس بھی مقامی نہیں ملی۔ اور جو پولیس ملی اس پر بھی اب اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ جب باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگے محافظ ہی لٹیرے بن جائیں تو شہری تحفظ کے لیے کس کی طرف دیکھیں۔ یہ محض الزام یا سیاسی بیان نہیں ہے خود محکمہ پولیس نے کئی بڑے افسروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ کبھی یہ پولیس والے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بلیک میل کرتے ہیں اور کبھی سابق فوجیوں کو، کبھی براہ راست ڈکیتیوں میں ملوث نکلتے ہیں۔ کسی سڑک، گلی چوراہے پر بھی پولیس کھڑی ہو تو اس کو دیکھ کر احساس تحفظ کے بجائے شہریوں میں خوف کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ رواں برس اسٹریٹ کرائمز کی ۷۷ ہزار ۷۴۴ وارداتیں ہوئیں، ۱۰۰ سے زائد قتل ہوئے۔ یہ شکایت بھی ہے کہ پولیس میں مقامی لوگوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بھی توجہ دلائی ہے، کراچی سے پولیس میں ۸۰ فیصد بھرتی ہونی چاہیے۔ اور ہر رینک کے اعتبار سے کراچی کے لوگوں کو نمائندگی ملنی چاہیے، انہوں نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ پولیس میں بھرتی ہونے والا فرد کراچی کا مستقل رہائشی ہونا چاہیے اور اس کا فیصلہ عبدالستار افغانی کے دور میں ہوچکا کہ جس کا رہنا اور جینا مرنا اسی شہر میں ہو وہ مقامی ہے خواہ کوئی زبان بولتا ہو۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آئی جی سے لے کر سپاہی تک کراچی شہر کے مستقل رہائشی پولیس میں بمشکل دس فیصد نکلیں گے اور وہ بھی چھوٹے مناصب پر۔ اسی طرح کراچی سیف سٹی منصوبے کا ذکر اخبارات، کابینہ کی بریفنگ اور سیاسی بیانات میں تو ہوتا ہے لیکن اس کی بنیادی ضرورت شہر کے چپے چپے کو روشن بنانا اسٹریٹ لائٹس لگوانا ہے، کیمرے اور ڈیجیٹل نظام تو بعد میں آتا ہے یہی نہیں ہے بلکہ جہاں اسٹریٹ لائٹس موجود ہیں وہ بھی اکثر و بیشتر بند رہتی ہیں۔ اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور اندھیرا اسٹریٹ کرمنلز کے لیے حکومت سندھ کا بہترین تحفہ ہے۔ سندھ حکومت کا سیف سٹی منصوبہ کیوں ناکام ہے اس کا اندازہ صرف ایک واقعے سے ہوسکتا ہے کہ آج کل مشہور کیس ڈی ایس پی عمیر طارق کا چل رہا ہے ان لوگوں نے اورنگی میں ایک گھر میں تلاشی کے نام پر گھس کر دو کروڑ روپے نقد اور ۸۰ لاکھ کا سونا لوٹ لیا۔ یہاں پانچ بھائی رہتے ہیں۔ یہ لوگ واردات کے بعد جاتے ہوئے گھر کا سی سی ٹی وی کیمرا اس کا ریکارڈ سب ساتھ لے گئے، البتہ گلی کے ایک کیمرے میں پولیس موبائل کی شناخت ہوگئی جس سے یہ پکڑے گئے۔ اس کیس نے مزید ہولناک رخ یہ اختیار کیا کہ عمیر طارق کے وکیل نے انکشاف کیا کہ اس کیس میں ایس ایس پی سائوتھ بھی ملوث ہیں۔ یعنی اعلیٰ افسران ہی جرائم میں ملوث ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں نے آدھی رقم اور تھوڑا سونا دے کر مک مکا کرنے کی کوشش کی لیکن متاثرین نے ایف آئی آر پر اصرار کیا۔ پولیس کے بارے میں یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ ان کے جو لوگ پکڑے جاتے ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی محض رسمی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ انتہائی ہائی پروفائل کیس میں رائو انوار بھی صاف بچ چکے ہیں تو پھر دو چار کروڑ کی ڈکیتی کی کیا اوقات ہے۔ سندھ پولیس کی ایک کمپنی ہے جو بینڈ کمپنی کہلاتی ہے اس میں ان ممنوعہ لوگوں کو رکھا جاتا ہے جن کی تعیناتی کہیں بھی کرنے پر پابندی ہوتی ہے۔ اس کمپنی میں ساڑھے چار سو لوگ شامل ہیں اور یہ بھی بیشتر اندرون سندھ کے ہیں۔ ملک میں حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کا کھیل کرنے والے جس کو چاہے نکالیں جس کو حکومت میں لائیں یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن کم از کم چوروں ڈاکوئوں کو تو مسلط نہ کریں۔ شہری اگر اپنے تحفظ کے لیے خود کارروائیاں کریں گے تو یہ امن و امان کے لیے مزید مسئلہ پیدا کرے گا۔