مذہبی رجحانات کے حامل احباب پر یاسر پیر زادہ کے الزامات کی حقیقت

659

آخری حصہ

جس کی وجہ سے پاکستان اس حال کو پہنچا ہے، اصلاح اور مسائل کے حل کی شاہراہ اور گزر گاہ تو بس اس آیت اس حکم الٰہی۔ ’’آپ کہہ دیجیے، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا، اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ (سورہ الانعام: 162) سے ہو کر ہی جاتی ہے، باقی اس کے سوا سب سراب ہے، 75 سال کے سفر کا ابھی تک یہی نتیجہ ہے، ہمارا معاشرہ مزید تجربات کا متحمل بھی نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ جن مغربی اقدار کا دلدادہ ہو چکا ہے اگر اس کی تباہ کاری اور تابکاری کا بڑے پیمانے پر ابلاغ نہ کیا جائے تو یہ معاشرہ ہمارا احتساب ضرور کرے گا۔ مذہبی رجحانات والے احباب عملی زندگی کے تمام مسائل، بشمول عریانی اور فحاشی، تمام موضوعات پر بات کرتے ہیں اور توجہ دلاتے رہتے ہیں، بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یاسر پیر زادہ نے اپنے طور سے، مذہبی رجحانات کے حوالے سے، کچھ مخصوص شخصیات کو مرکز نگاہ کرتے ہوئے، تمام مذہبی رجحانات رکھنے والوں کو اپنے تئیں لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن حکیم اپنے کلام میں ہی ہمیں بتاتا ہے کہ آدم اور حوا کو شیطان جب اپنے ڈھب پر لے کر آیا تو اللہ کی طرف سے ان کی ستر پوشی کا جو بندوبست تھا، وہ ہٹ گیا، اس بات سے قطعی یہ مطلب نکلتا ہے کہ شیطان کی انتھک کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح انسانوں کو عریانی اور فحش کے ذریعے نافرمانی کے کھولے ہوئے دروازے سے اس راستے پر لائے اور دوڑانا شروع کر دے۔ درحقیقت یہ ہی یاسر پیر زادہ اور ان جیسے ذہنوں کا مغالطہ ہے کہ انہوں نے اپنے طور سے کہیں اپنے خود ساختہ خیالات میں مذہب، مذہب بیزار، لبرل، دائیں بازو، بائیں بازو کی لکیریں کھینچ رکھی ہیں، جس کا وہ اپنے حوالے سے کھل کر اظہار بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہاں البتہ قرآن، ایک مسلمان کو ایک ایسی لکیر کھینچنے کی ہدایت، ذاتی حیثیت میں، اور بطور حکمران اختیار دیتا ہے، جو ہمیں احکام الٰہی کے پابند اور احکام الٰہی کے باغیوں کے درمیان تقسیم کہنا چاہیے، اور وہ ہے ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’حزب الشیطان‘‘۔ لبرل، دایاں بازو، بایاں بازو، دین بیزار اور دیگر تقسیم تو ہماری ذہنی اختراع اور خود ساختہ ہے، ہم نے کچھ لوگوں کا رویہ ایک معاملے میں کچھ دیکھا اور کچھ لوگوں کا رویہ اسی معاملے میں کچھ اور دیکھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کس کا رویہ صحیح؟ اور حق پر مبنی کون ہے؟، فیصلہ کون کرے گا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ سیرت رسول اور قرآن کی کسوٹی پر انسان کا عمل یہ ظاہر کرے گا کہ کون سا رویہ صحیح اور کون سا رویہ غلط ہے۔

یاسر پیرزادہ سے ہم عرض کریں گے کہ وہ خود اتنی ساری تقسیم اور اپنے تبصرے کے بعد ایک جگہ آکر جامد ( ٹھیراؤ کا شکار) ہو گئے ہیں، ہمت کرکے انہیں مزید اور آگے بڑھنا چاہیے، جیسے جیسے وہ آگے بڑھیں گے ان پر مزید حقیقت آشکارا ہو گی، اگر وہ اپنے اور اپنے اجداد کے ماضی کی طرف پلٹیں یا پیچھے جائیں (اور پہلے چلے جائیں) تو انہیں اپنے ہی چھوڑے ہوئے نشان منزل نظر آئیں گے جن کی ابتدا، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کے حوالے سے وقتی غفلت کا شکار ہوجانا، توجہ ذرا سا اِدھر سے اْدھر ہونا، شیطان لعین کی وہ چالبازیوں ہیں جب حیلہ، بہانہ سے اس نے آدم اور حوا کو ورغلایا، اور پھر اسی راستے آدم کی اولاد کو انسانیت سے ہٹا کر شیطانیت کی پگڈنڈیوں پر پہنچا دیا جو کہ تمام تر ہی گمراہی اور بے حیائی کے راستے ہیں، اور اسی سمت ہی لے جاتے ہیں۔ عریانی اور فحاشی دراصل مغربی اقدار اور مغرب کے معاشرے کی کھلی ہوئی عکاسی کرتی ہے، جسے اب فیشن سمجھا جاتا ہے، بد قسمتی سے عریانی اور فحاشی کو فیشن کا درجہ دینے میں ہمارا میڈیا کسی سے کم نہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اپنے خود ساختہ مفاہم اسلام کو ڈھال بھی بنانے کی کوششیں اپنی جگہ پر ہیں۔

یاسر پیر زادہ سے عرض ہے کہ وہ اس مغالطہ کو درست کرلیں اور کرا دیں کہ، اسلام نہ کبھی خطرہ میں تھا اور نہ ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ انسانوں اور مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ اسلامی معاشرے کے خدوخال بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ عورت کی آزادی کے نعرے مغرب سے درآمد شدہ ہی ہیں، لیکن یہ اتنا سیدھا سادھا معاملہ ہے نہیں، جتنا یاسر پیر زادہ سمجھا رہے ہیں۔ مغربی تہذیب خاص نظریات اور مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کبھی پیپلز پارٹی، کبھی تحریک انصاف اور کبھی مسلم لیگ(ن) کو آلہ کار بناتی رہی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر ن لیگ کی خدمات مستعار لینے کا جھانسہ دیا جارہا ہے، مسلمانوں کے معاشرے کے حوالے سے مذہبی ٹچ کی پی ٹی آئی کے تجربے کے بعد اب نواز شریف نے مذہبی ٹچ کی ابتدا اپنے مینار پاکستان کے جلسہ عام میں کی ہے۔ مغرب کی چالبازیاں سمجھنی ہوں تو ان کے دھوکہ دہی کی واردات سے واقفیت بھی ضروری ہے، چھوٹی سی مثال، جیسے فلسطین کے حالات حاضرہ کے تناظر میں ’’کولا مشروب‘‘ کے ڈبے ’’کین‘‘ پر ’’فلسطین‘‘ کے پرنٹ کا حالیہ اضافہ، یہ فوری اور بروقت کاروائی کے ماہر ہیں۔ دراصل یہی مخمصہ ہے جو یاسر پیر زادہ کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہے، انہوں نے اگر اتنے سنجیدہ موضوع کو دشنام طرازی کے لیے نہیں چنا تو پہلے انہیں اسلام کے اور قرآن کے پیغام سے کماحقہْ واقفیت چاہیے اور اسلام کو اپنے خود ساختہ مفہوم سے سمجھنے اور سمجھانے کے بجائے قرآن کے واضح احکامات کی روشنی میں بتانا چاہیے کہ انسانوں کی زندگی کا وہ کون سا شعبہ ہے، بقول ان کے جو اسلام کو ’’گھسیٹے‘‘ بغیر ہم اسلام پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں؟۔ رہ گئی بات مدارس کے حوالے سے، تو ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ آپ ایک اور مسئلہ کے حوالے سے الجھے ہوئے ہیں اور اپنی تحریر میں مکمل سوال کی شکل میں بھی نہ رکھ پائے، تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ یاسر پیر زادہ کے اس سوالیہ جملے ’’ہمارے مذہبی دوست مدارس میں ہونے والی زیادتیوں پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے ہیں‘‘ کو اس طرح کی شکل دے کر دیکھیں؛، ہو سکتا ہے لوگ اس طرح بھی سوچ رہے ہوں ؟ ’’جو زیادتیاں مدارس میں ہو رہی ہیں ان ہی زیادتیوں کو ہمارے معاشرے میں ڈاڑھی والے افراد زیادہ کر رہے ہیں یا کلین شیو افراد‘‘۔ موضوع سخن کچھ اور ہو جائے گا۔ رہ گئی یاسر پیر زادہ کی بات جو انہوں نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھی جو قارئین کے پیش خدمت ہے

’’ہمارے ہاں زیادہ تر لکھاری اپنے ’کلائنٹس‘ کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اْن کے قارئین انہیں چھوڑ کر اْس شخص کو پڑھنا شروع کردیں گے جو اْن کے نظریات کے مطابق لکھتا ہو‘‘۔ ادب کے ساتھ عرض ہے؛ سوالات کے کچوکے ہوں یا اعتراضات کی نوعیت میں ابہام اور کاٹ کا انداز کتنا ہی تبدیل کر لیں، جواب ایک ہی ہے، کہ ہم سب کو اب ہٹ دھرمی کا رویہ اور راستہ ترک کرنا چاہیے، ہم سب من مانی بہت کر چکے، ہم کوشش کریں کہ اسلام کی کشادہ شاہراہ پر ’’قوانین الٰہی‘‘ کا خیال اور ’’کرامن کاتبین‘‘ کی ہر وقت کی، اپنے پاس موجودگی کا ’’ادراک‘‘ کرتے ہوئے اپنے سفر زندگی کو اچھے انداز میں اختتام پزیر کرسکیں، دنیا میں کم سہولتوں والی عارضی زندگی ہو یا ترقی کی معراج، سفر آخرت اور جنت میں داخلہ کے لیے دنیا میں ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں کہ جس کے لیے ہم سب کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ سیدھی بات کو سیدھی طرح بیان کرنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ سلیم احمد کتنی سادگی سے اپنی بات سمجھا کر گئے ہیں۔

دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جائیے میں