گورکھ دھندا

586

مسلک ِ عمرانیہ کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو سیاست سے آؤٹ کرنے کا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا کیونکہ خان صاحب نے اپنا قائم مقام نامزد کر کے مخالفین کی اْمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان دینے کے لیے تحریک انصاف میں الیکشن کرانے کی جو شرط لگائی تھی وہ تسلیم لی گئی ہے۔ خان صاحب نے مخالفین کی لگائی بجھائی کو سونامی میں ڈبو دیا ہے۔
قائد اعظم کے کھوٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے جعلی سِکّوں سے بچانے کے لیے مقتدر قوتوں نے عمران خان کو آزمانے کی جو کوشش کی تھی وہ بد نیتی پر مبنی نہیں تھی مگر قومی بدنصیبی یہ ہوئی کہ دودھ کی رکھوالی کے لیے بِلے کا انتخاب کر بیٹھے مگر یہ بھول گئے کہ بِلا دودھ کی رکھلوالی نہیں کرتا اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ دودھ بِلے نے پیا بد ہضمی قوم کو ہوگئی اور پھر بد ہضمی سے نجات کے لیے عدم اعتماد کی پھکی کھلانا پڑی جس کے ردِ عمل میں ڈکاریں آنے لگیں جو سانحہ 9 مئی پر منتج ہوئیں اور مقتدر قوتیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ ان کا نامزد بِلا دودھ ہی کا دشمن نہیں دودھ کا برتن بھی چبانے کا ماہر ہے دودھ کا گِرنا ایک ناگوار عمل ہے مگر کا دودھ کا برتن توڑنا ایک خطرناک عمل ہے ایک ایسا خطرناک عمل جس کا سدِباب نہ کیا جائے تو حکومت ہی نہیں ریاست بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

تحریکِ انصاف کی کوّر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 20 دن کے اندر انتخاب کرانے کے لیے جو شرط عائد کی تھی اْس پر عمل کیا گیا ہے اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بَلے کے نشان سے محروم کر دی جاتی۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان انٹرا پارٹی الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں اْنہوں نے چیئرمین کے عہدے کے لیے بیرسٹرگوہرخان کو نامزد کر دیا ہے جو بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں اس نامزدگی پر بیر سٹر گوہر خان نے اظہارِ ممنونیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک عمران خان جیل سے باعزت طور پر رہا نہیں ہو جاتے وہ جانشینی کی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان ہی ہیں اور تاحیات رہیں گے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کو سیاسی پارٹیاں تسلیم کررہی ہیں اور نہ ہی تحریک ِ انصاف کے ممتاز رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے۔

یا دش بخیر! جب عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان کیا گیا تو ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ ایک آزمائش ہے۔ اگر عمران خان اس آزمائش میں کامیاب ہوئے تو نہ صرف اپنی مدت پوری کریں گے بلکہ آئندہ 5 سال بھی اْن کی کِٹ بْک پر ایشو کر دیے جائیں گے بصورت دیگر تاحیات تحریکِ انصاف کے رہبر بنادیے جائیں گے اور اب حالات اسی پہراہن میں ملبوس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلک ِ عمرانیہ کے پیروکار کہا کرتے تھے کہ عمران خان کو مائنس نہیں کیا جاسکتا وہ تاحیات تحریکِ انصاف کے چیئرمین رہیں گے مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ عمران خان کو مائنس کردیا گیا ہے۔ شیخ رشید کہا کرتے تھے اگر عمران خان کو مائنس کرنے کے سازش کی گئی تو یہ پاکستان دشمنی کی بدترین مثال ہوگی کیونکہ 22 کروڑ عوام اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہوچکی ہے مگر شیخ رشید کی سوئی 22 کروڑ پر اٹکی ہوئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ لوگ گھروں سے نکل آئیں گے پورا مْلک جام ہوجائے گا۔

شیخ رشید کا یہ بیان پاکستان کی سیاسی تاریخ سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے کیونکہ سب ہی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مقبول ہی نہیں قبول بھی تھے مگر جب گرفتار کیا گیا تو کوئی قابل ِ ذکر ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا اور جب اْنہیں سزائے موت دی گئی تو ہمالیہ رویا اور نہ ہی عوام نے ماتم کیا۔ ایم کیو ایم کے قائد مقبول بھی تھے اور قبول بھی تھے مگر جب زیرِ عتاب آئے تو مقبولیت اور قبولیت کسی کا م نہ آئی۔ میاں نوازشریف مقبول تو تھے قبولیت کھو چکے تھے مقتدر قوتوں کی جانب سے قبولیت کی سند حاصل تھی مگر جب عدالت کے کٹہرے میں آئے تو باہر نہ نکل سکے۔ امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے والے میاں نواز شریف نہ صرف خواب بنا دیے گئے بلکہ تعبیر بھی خواب بنا دی گئی۔ اْن کی قسمت اچھی تھی کہ مقتدر قوتوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور اْنہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ توقع ہے کہ وہ چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ پر براجمان کردیے جائیں گے ویسے اس خیال کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اس بار وہ خود غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں اْن کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرنیلوں سے چشم پوشی کا تہیہ کر چکے ہیں مگر ججز اب بھی اْ ن کا ہدف ہیں۔