مسلم لیگ اور پی پی پی کی جمہوریت کیلیے بے چینی

579

پاکستان مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے انتخابات کو سلیکشن قرار دیا ہے۔ پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے چیئرمین پی ٹی آئی کا انتخاب الیکشن کے بجائے سلیکشن قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن جب بھی ہوئے متنازعہ ہوئے جب عمران خان نے یہ الیکشن کرائے تھے تو ان کی پارٹی کے اہم عہدیدار جسٹس (ر) وجیہ الدین نے انہیں متنازعہ قرار دیا تھا اور بے شمار بے ضابطگیوں کی جانب توجئہ دلائی تھی جس کے جواب میں عمران خان نے جسٹس وجیہ الدین ہی کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے پورا عمل صرف ۱۵ منٹ میں مکمل ہوگیا۔ چیئرمین کے عہدے کے لیے کوئی تجویز کنندہ تھا نہ تائید کنندہ۔ فیصلہ کرنے کے بعد ڈیڑھ گھنٹے تک اعلان روکے رکھا گیا جس سے الیکشن کمیشن اور پارٹی ورکرز کو دھوکا دیا گیا۔ مریم اورنگزیب نے توجہ دلائی کہ الیکشن خفیہ مقام پر ہوا کوئی ووٹر لسٹ تھی نہ کوئی پریذائیڈنگ افسر۔ ان کا یہ سوال بھی بجا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے اعتراض کیا ہے کہ پارٹی کے الیکشن میں بھرپور دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہے جس کا مطالبہ پی ٹی آئی کرتی رہی ہے۔ جو لوگ الیکشن لڑنا چاہتے تھے انہیں تو الیکشن ہی نہیں لڑنے دیا گیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے ان انتخابات کی چھان بین کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ دونوں پارٹیوں کے الزامات اور حقائق بھی اسی کے مطابق ہیں لیکن ان دونوں میں سے کون سی پارٹی دعویٰ کرسکتی ہے کہ ان کے انٹرا پارٹی الیکشن جمہوری تھے اور ہر ایک کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی تھی۔ مسلم لیگ شریف خاندان کی پارٹی ہے۔ میاں نواز شریف راندہ درگاھ ہوتے تو ان کے بھائی شہباز شریف مقدمات کے باوجود کمپرومائز کرکے پارٹی قیادت پر براجمان ہوگئے پارٹی میں اس پر اختلافات ہوئے تو اسی خاندان کی مریم نواز کو چیف آرگنائزر بناکر شہباز شریف سے بھی زیادہ اہمیت دے دی گئی۔ کوئی یہ بتاسکتا ہے کہ گزشتہ تقریباً چالیس برس سے مسلم لیگ شریف خاندان کی میراث کیوں ہے کیا واقعی جاوید ہاشمی، چودھری شجاعت، شاہد خاقان عباسی، شیخ رشید، چودھری نثار وغیرہ کی کوئی خدمات مسلم لیگ کے لیے نہیں تھیں ظاہری بات ہے ان سب کو ایک ایک کرکے اختلاف کرنے کی سزا دی گئی اور یہ سب اب دوسری پارٹیوں میں ہیں یا غیر موثر ہیں۔ اسی طرح کیا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہی پیپلز پارٹی چلانے کی حقدار اور صلاحیت رکھتی تھی جب انہیں اس کی قیادت سونپی گئی یہ پارٹی بھی مسقتل بھٹو خاندان کی جاگیر ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کی جانب سے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات پر تنقید صرف ان کے اپنے ماضی اور کردار کی وجہ سے غیر موثر ہوکر رہ گئی ہے جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جس طرح کی دھاندھلی پی ٹی آئی الیکشن میں ہوئی تھی اور اب ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ ان دونوں پارٹیوں میں ہوتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جمہوریت تو یہ ہے کہ کوئی اختلافی آواز بھی اٹھائے تو اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں دراصل سب پارٹیاں دھاندلی کی پیداوار دھاندلی سے اقتدار میں آنے والی اور دھاندلی کی خواہشمند ہیں جمہوریت کی نہیں۔