!ووٹ کا پیمانہ

884

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات قیام پاکستان کے تقریباً 23 سال بعد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ ملک کی اس وقت کی دوبڑی پارٹیوں میں سے کوئی بھی قومی نظریاتی پارٹی نہیں تھی۔ بنگال کا ووٹ نہ نظریے کے لیے تھا نہ وطن کے لیے! یہ خالصتاً علاقائی، نسلی اور لسانی نفرت کی بنیاد پر تھا۔ شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان سے پاکستان کا صفایا کردیا۔ مغربی پاکستان میں نہ امیدوار کھڑے کیے اور نہ کوئی غیر بنگالی سیٹ لینے کی کوشش کی۔ دوسری بڑی پارٹی نے پنجاب اور سندھ سے کامیابی حاصل کی۔ مشرقی پاکستان سے کچھ سروکار نہ رکھا! اس وقت کے سرحد کا ووٹ لسانیت اور فرقہ بندی میں تقسیم ہوا۔ جس سے ولی خان اور مفتی محمود کی پارٹیوں کو صوبائی حکومت بنانے کا موقع ملا۔
مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد ہر الیکشن لسانی اور دیگر عصبیتوں کی بنیاد پر لڑا اور جیتا گیا! سندھ میں بھٹوز، سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک لسانی تنظیم، پنجاب میں پنجابی پس منظر والی نون لیگ، سرحد میں نیپ (پختون پس منظر کے ساتھ)، بلوچستان میں علاقائی قبائلی سردار! اس سارے انتخابی عمل میں نظریہ پاکستان، جمہوریت، خدمت اور حب الوطنی کا معاملہ تو ووٹر کی ترجیحات میں کہیں نظر نہ آیا۔ گزشتہ پچاس سال کے ہر الیکشن کے نتائج یہ بتا رہے ہیں کہ ووٹر ووٹ دیتے وقت خدمت، ایمانداری جمہوریت یا کارکردگی کو نہیں دیکھتا۔ ووٹ کی بنیاد شخصیت، برادری، قبیلہ، لسانیت، علاقائیت اور فرقہ ہے۔ یہ رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان نظریہ پاکستان، جمہوریت اور ملک کو ہو رہا ہے۔ نتیجتاً ملک کی نظریاتی اور جمہوری پارٹیاں آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جارہی ہیں۔
گزشتہ دو تین الیکشن کے نتائج کچھ اس طرح کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ کے پی میں ووٹ زیادہ تر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ لسانیت اور فرقہ! لسانی ووٹ مزید تقسیم کے ساتھ اے این پی اور پی ٹی آئی کی طرف جاتا ہے جبکہ فرقہ بندی کا ووٹ دیوبندیت کی بنیاد پر جے یوآئی کو ملتا ہے۔ بلوچستان کے ایک حصے میں دیوبندی ووٹ جے یو آئی کو ملتا ہے اور دوسرے حصے میں بلوچ قبائلی سرداروں کو! اندرون سندھ کا زیادہ تر ووٹ اب بھٹو کے وارث وڈیروں کی امانت ہے۔ سندھ کا ووٹر وڈیرے کے اثر سے ابھی نکل نہیں پایا۔ البتہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رجحان بہت بدل گیا ہے۔ یہاں کا ووٹر الحمدللہ لسانیت کے زہر اور شخصیت پرستی کے سحر سے نکل آیا ہے۔ کراچی میں بہت واضح طور پر ووٹ تو امانت، دیانت، شرافت اور ’’الخدمت‘‘ کا ہے لیکن آر اوز اور الیکشن کمیشن کا عملہ وہی ہے جس نے کراچی کے حالیہ ’’شفاف ترین‘‘ بلدیاتی الیکشن کروائے تھے۔
پنجاب کا ووٹر اب کچھ اس طرح منقسم ہے۔ پنجابی ووٹ میں برادری بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ کرپشن زدہ سڑکیں یا موٹر ویز نواز لیگ کی کارکردگی کا کتبہ ہیں۔ 2018 تک نون کا ووٹ بینک وجود رکھتا تھا۔ پھر اپریل 2022 کے (اپریل فول کے) بعد سولہ ماہ کے پتلی تماشا دور میں اس کے ووٹ بینک میں تیزی سے کمی ہوئی۔ خیال ہے کہ اگر نیازی حکومت جاری رہتی اور اپنے پانچ سال پورے کرتی تو پورا ملک اس کے لیے پلٹن میدان بن چکا ہوتا۔ جہاں ایک اور نیازی عوام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا۔ نیازی کی قول وعمل کے تضادات پر مبنی ساڑھے تین سالہ بدترین کارکردگی کے نتیجے میں نیازی کی شکست نوشتہ دیوار تھی۔ لیکن نیازی کی خوش قسمتی کہ مولانا کی قیادت میں بننے والی بھان متی کنبے کی حکومت کی سولہ ماہ کی سیاہ ترین کارکردگی نے سیاسی بستر مرگ پر پڑے نیازی کو حیات نو بخش دی۔ دراصل پی ڈی ایم نے نیازی حکومت کے سیاسی گند کا ٹوکرا اپنے سر پر رکھ کر اس میں مزید اور اچھا خاصا مزید گند ڈالا۔ اب پنجاب کے ووٹ بینک میں بہت سارے نئے کھاتے دار بھی آگئے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کی کچھ تعداد نے (مینیجر کی آشیرواد کے ساتھ) آئی پی پی کے نام سے اکائونٹ کھولا ہے۔ یہاں ووٹ بینک کی بنیاد چونکہ شخصیت پرستی ہے تو مقابلہ بظاہر نیازی اور ٹبر شریف کے درمیان نظر آرہا ہے۔ بریانی، پٹواری اور مینیجر شریفوں کا سہارا ہیں۔ تو اسلامی ٹچ، ’’مظلومیت‘‘ اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نعرے ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ بظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ آئندہ الیکشن بھی مینیجر، شخصیت، فرقہ، لسانیت، برادری، قبیلہ، علاقائیت، پٹواری اور آر اوز کے سہارے لڑا اور جیتا جائے گا۔ ایمانداری، جمہوریت، خدمت اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کا استعمال شاید ابھی ووٹر کے زیر غور نہیں ہے۔ اگر منفی رجحانات سے ووٹر کو نکالنا اور لسانی، علاقائی اور فرقہ پرست موروثی جماعتوں سے چھٹکارا پانا ہے تو ملک، قوم اور حقیقی جمہوریت کے لیے کراچی کے حافظ نعیم الرحمن، سید عبدالرشید اور گوادر کے مولانا ہدایت الرحمن کی طرز پر عوام سے رابطہ اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ان کی آواز بننا اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنا ہوگا۔