سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کراچی میں دو روزہ ادب فیسٹیول کے اختتام پر ملک کی مروجہ سیاست پر خوب تبصرہ کیا کہ کیونکہ سیاست دان شفاف نہیں رہے۔ سو انہوں نے سمجھوتے شروع کردیے اور سمجھوتے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی کابینہ پر کرپشن کے مقدمات بنوانے کی کوشش کی مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے۔ سینئر تجربہ کار سیاست دان کا یہ تبصرہ بتارہا ہے کہ سیاست دانوں کی بڑی کمزوری اُن کی کرپشن ہے جس کی وہ قیمت دیتے ہیں اور مقتدر حلقے اُس کی قیمت من پسند فیصلے کروا کر وصول کرتے ہیں۔ سیاست جب سے تجارت قرار پائی اور اس میدان میں بھاری سرمایہ کاری کرکے خوب کمائی کا سامان کیا تو انکم ٹیکس فائلرز کی طرح ان کی کرائم فائلز بھی تیار ہونے لگی ہیں۔ یہ خیال مقتدر حلقوں کو ایک حلقہ کے مطابق اپنی لے پالک تنظیم مہاجر قومی موومنٹ عرف ایم کیو ایم کی حکمت عملی سے آیا جس نے اپنی تنظیم میں حلف یافتہ کارکنوں کا ایک جتھا کرائم فائلز کی بنیاد پر کیا جس کے رکن بننے کی شرط اُس کے جرائم کی کہانی ہوتی ان جرائم پیشہ فائلرز سے جہاں فسطائیت کا سامان ہوتا۔ وہاں لوٹ کھسوٹ سے فنڈ کا بھی بندوبست کیا جاتا اور یہ کرائم فائلر اُس وقت بھی ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کے کام آتی جب کرائم فائلر ذرا بھی روگردانی کرتا تو جرائم کی فائل اپنے مربی حکمرانوں کو پہنچا کر اس کو مقابلہ میں مروا دیا جاتا۔
ایم کیو ایم کے کرائم فائلر سسٹم سے اندرون سندھ کے وڈیروں نے استفادہ کیا اور ڈاکوئوں کو اسی نہج پر استعمال کرکے خوب دولت سمیٹی۔ پھر یہ مرض بڑھتا گیا اور حکومت کے مقتدر حلقوں میں بھی سرایت کر گیا۔ سیاسی سیل بنا کر حکمرانوں کو کٹھ پتلی کی طرح نچایا گیا اور کرائم فائلز سے خوب ڈرا کر مطلب برآوری کا سامان کیا گیا اور یہ جملہ مقتدر حلقوں میں عام ہوا کہ یہ ایک فائل کی مار ہے اور واقعی کرائم فائل سیاسی حکمرانوں کو تگنی کا ناچ نچاتی رہی اور مطلب برآوری کے لیے مقتدر حلقوں نے کرائم فائلر کا خوب استعمال کرکے ان کا انتخاب کیا۔ معیاد پوری ہونے سے قبل کرپٹ قرار دے کر اقتدار سے رخصتی کراکر ان کی اوقات بنائی گئی۔ یوں کرائم فائلر سیاست دانوں نے جہاں لوٹ مچائی وہاں سب سے برا یہ ہوا کہ حصہ بقدر جثہ مقتدر حلقوں کو پہنچا کر اپنا جیسا کر ڈالا اور یوں ملک کی معیشت کا بھٹا بٹھادیا اور بٹھانے کے بعد مقتدر لوگوں نے پھر اقتدار پر بٹھانے کے لیے مکار پیروں کے خلیفوں کی طرح یہ بے پَرکی اُڑائی کہ پانی کتنا ہی گندہ ہوجائے آگ بجھادیتا ہے اور یوں مہنگائی کی بھڑکتی آگ کو بجھانے کے لیے اب پھر گندے پانی سے مبینہ طور پر ملک کی معیشت کو غسل صحت یابی کا بندوبست ہورہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ جو تم نے کھایا تم کو آیا وہ تمہاری سیاست کا خراج کا مال تھا۔ اب کچھ کمال دکھائو۔
سیاست کے گندے جوہڑ سے ملکی معیشت کی آبیاری اور مقاطعہ پر اقتدار دیے جانے کا یہ رزلٹ ہے کہ پاکستانی حکمران ایسی ہوگئی کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، بات صاف ہے کہ اگر کرائم فائلز درست ہیں تو ان کو حکمران بنانا بلی سے دودھ کی رکھوالی کرانا نہیں تو اور کیا ہے اور اگر فائلز کرائم غلط ہیں تو پھر کرائم فائلز سے ویڈیو ریکارڈنگ بنانے والے سزاوار کیوں ہیں اب یہ فیصلہ ہوجانا چاہیے بہت گھنائونا کھیل ہوگیا۔ ملک کا بیڑہ غرق ہونے یا کرنے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ بات یہ نہیں کہ نان فائلر کرائم ملک میں نہیں ہیں۔ یہ کورچشم مقتدر حلقوں کو پتا نہیں کہ جماعت اسلامی کے پی کے میں شریک حکمران ہوئی تو وزیرخزانہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے دیانت، امانت، صلاحیت اور صالحیت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کرکے دنیا خراج تحسین حاصل کیا۔ سیانے کہہ گئے ایک بل سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا اور جن کی فطرت ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں۔ بندر کے سر میں چقندر کا تیل لگانا کوئی سود مند نہیں ہوتا۔