منصورہ یا برہمن آباد

764

بھارت میں انتہا پسند بی جے پی کی بھارتی سرکار روز اوّل سے مسلم دشمنی میں پاگل ہوچکی ہے اور وہ مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب ثقافت، اسلامی تشخص، رسم ورواج، عقائد اور عبادت گاہوں کو مٹانے اور ان کی اساس پر حملہ آوور ہے۔ بابری مسجد ودیگر عبادت گاہوں کو منہدم کرکے انہیں چین اور سکون نہیں ملا تو انہوں مسلمانوں کے نام پر قائم شہروں ودیگر مقامات کے نام تبدیل کرنا شروع کردیے ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی حال ہی میں علی گڑھ شہر کا نام ہری نگر رکھا جا رہا ہے اور اس کے علاوہ الہ آباد کو پریاگ راج، فیض آباد کو ایودھیا، بنارس میں مغل سرائے جنکشن کا نام پنڈت دین دیال اور دارالحکومت نئی دلی میں عالمی شہرت یافتہ کرکٹ اسٹیڈیم فیروز شاہ کوٹلا کا بھی نام تبدیل کردیا گیا ہے۔ فاشزم کی ایک خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اندر سے دشمن تخلیق کرتا ہے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی اسلام دشمن قوتیں روز اوّل سے سرگرم عمل ہیں اور خاص طور پر سندھ حکومت جس میں راجا داہر کی باقیات بہت بڑی تعداد میں موجود ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے یہ اسلام دشمن عناصر اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال برصغیر میں مسلمانوںکا پہلا مضبوط ترین مرکز منصورہ کے نام کو تبدیل کر کے برہمن آباد رکھنے کا فیصلہ ہے۔ منصورہ سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد کے بعد آٹھویںسے دسویں صدی تک برصغیر میں اسلامی تہذیب اور ثقافت کا مرکز رہا ہے اور اسی جگہ سے قرآن کریم کا سندھی زبان میں پہلا ترجمہ لکھا گیا اور سندھی زبان کے نئے نمونے اور اسلامی تہذیب کو بھی یہاں سے فروغ حاصل ہوا۔ برصغیر پاک وہند یہ مسلمانوںکا پہلا مرکز بنا جو کہ دریا میں جزیرہ نما شہر تھا۔ یزید بن ابی کشہ کے زمانے میں سندھ کا دارالحکومت الور سے منصورہ منتقل کیا گیا۔ بشاری المقدس جس نے 961 عیسوی میں سندھ کا دورہ کیا اس نے اپنی کتاب ’’احسان التقسیم معارف الکلیم‘‘ میں لکھا کہ منصورہ ایک کلو میٹر طویل اور دو کلو میٹر چوڑا شہر ہے جس کے چاروں طرف دریا ہے اور چار دروازے ہیں۔ بقول اس کے منصورہ اپنی اراضی میں دمشق کے برابر ہے۔ یہاں کے مکانات مٹی اور لکڑی کے ہیں لیکن جامع مسجد پتھروں اور اینٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ یہ تمام ثبوت عملی طور پر منصورہ کے قدیم اور اسلامی مرکز ہونے کا عملی ثبوت ہیں لیکن اس کے باوجود سندھ کے قدیم ترین ثقافتی اور تہذیبی شہر کو انتہا پسند راجا داہر کی باقیات کی بھینٹ چڑھائے جانا ایک المیہ اور ظلم ہے۔
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور دو وقومی نظریہ آ ج ہر لحاظ سے سچ ثابت ہوگیا ہے۔ بھارت میں جس طرح سے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور ان کا جینا دوبھر اور حرام کردیا گیا ہے وہ سب کچھ دنیا پر عیاں ہے۔ پاکستان جو خالصتاً کلمہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور مدینے کی ریاست کے بعد یہ دنیا کا دوسرا ملک ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہی اس ملک پر اسلام دشمن قوتوں کا قبضہ ہے اور وہ آئے دن اپنی کارستانیوں کے ذریعے ہماری اساس پر حملہ آوور ہوتے ہیں۔ منصورہ کا نام تبدیل کر کے اسے برہمن آباد رکھے جانا اسی سلسلے کی کڑی ہے اور دو قومی نظریہ پر حملہ اور گہری سازش ہے بھارت جو کہ غیر مسلم ملک ہے اور خود کو سیکولر ریاست کہتے نہیں تھکتا لیکن مسلمانوں، سکھوں، دلتوں، عیسائیوں ودیگر چھوٹی قوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم نے ان کا نام ونہاد سیکولر ازم بے نقاب کردیا ہے اور پوری دنیا کے سامنے اس کا گھنائونا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ پاکستان میں راجا داہر کی باقیات اپنے آقا بھارت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اسلامی تہذیب پر حملہ آوور ہے۔ جس پر پاکستان کی حکومت، مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ تمام ہی دینی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو سخت نوٹس لینا چاہیے اور سندھ کے محکمہ ثقافت کے خلاف فوری طور پر اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر کے اس کے پس پردہ محرکات کا پتا چلانا چاہیے۔ بھارت تو مسلم دشمنی اور اپنے پاگل پن کی وجہ سے مسلمانوں کے شہروں ودیگر مقامات کے ناموں کو تبدیل کر رہا ہے لیکن یہاں پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے یہاں ہماری تہذیبی مراکز کو ہندوں کے نام پر رکھے جانا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ سندھ جو باب الاسلام ہے اور اس علاقے سے ہی اسلام کی چاروں طرف ہوائیں چلی تھیں پورے برصغیر میں اسلام کو فروغ اسی مرکز سے ہوا تھا۔ اس اسلامی تہذیبی مرکز کے نام کی تبدیلی نظریہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ ارباب اختیار کو فوری طور پر اس کے پس پردہ محرکات کا پتا چلانا چاہیے اور دو قومی نظریہ اور سندھ کی ثقافت کے خلاف کھلواڑ کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو اسلام اور نظریہ پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت اور ہمت نہ ہوسکے۔