آہ شبیہ حیدر کاظمی

1115

24 اکتوبر کی رات دفتر سے حسب معمول تقریباً نو بجے گھر پہنچنے کے بعد اپنے واٹس اپ پر پیغامات چیک کرتے ہوئے اپنے کزن عباس حامد زیدی کے ایک رْوح فرسا پیغام پر نظر پڑی جس کے مطابق میرا خالہ زاد بھائی شبیہ حیدر کا ظمی جو تقریباً دو سال قبل برین ہیمرج کے ایک حملے سے پیدا ہونے والے صحت کے سنجیدہ مسائل سے بڑے حوصلے اور بہادری سے مقابلہ کر رہا تھا اس دنیاء فانی سے سفر آخرت پر روانہ ہو چکا تھا۔ اس پیغام کو کئی ساعتوں تک میں یقین اوربے یقینی کی کیفیت میں ٹکٹکی باندھے تکتا ہوا ماضی کے جھرکوں میں کھو کیا۔ گزشتہ برس ماہ نومبر میں اس کی والدہ کے چہلم میں شرکت کے لیے چک جھمرہ گیا تھا تو اُس سے ملاقات ہوئی تھی، اْس وقت اُس کی صحت میں کافی بہتری آگئی تھی۔ وہ مجھ سے بڑی محبت اور تپاک سے ملا اور میری آمد پر بار بار خوشی کا اظہار کرتا رہا، اْس کے یہ الفاظ ’’حسن بھائی کے آنے کی مجھے بہت خوشی ہوئی‘‘ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ بیماری انسان کی طبیعت میں بے زاری اور چڑچڑا پن پیدا کر دیتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اْس کی خوش مزاجی بیماری کی کیفیت میں بھی برقرار تھی، جب تک میرا قیام اس کے گھر رہا اْس نے میری مہمانوازی میں کوئی کثر نہ چھوڑی، اُس سے رُخصت ہوتے وقت میرے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ اْسے آخری مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک بہترین اسپورٹس مین اور قابل رشک صحت کا مالک تھا، ایک خوب صورت اور خوب سیرت شخص جس کے چہرے میں ایک عجیب سی معصومیت گھلی ہوئی تھی برین ہیمرج کے حملے کا شکار ہو کر دو سال سے بھی کم مدت میں اپنے بے شمار چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر خاک نشیں ہو گیا۔

شبیہ حیدر جو اپنے گھر اور خاندان میں ’’شْبوّ‘‘ کی عرفیت سے موسوم تھا ایک منفرد اور اعلیٰ صفات کا حامل شخص تھا جیسے دست قضا نے نا وقت ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔ وہ وقت ضرورت دامے، در ہمے، قدمے، سخنے ہر کس و ناکس کے کام آتا تھا اور اْس کی یہی خوبی اْس کی مقبولیت اور اپنوں اور غیروں کی اْس سے بے پناہ محبت وانسیت کا باعث تھی۔ گزشتہ برس انہی دنوں میں تقریباً پندرہ سال بعد چک جھمرہ گیا تھا، راستے میرے دیکھے بھالے تھے لیکن چونکہ ایک طویل عرصے بعد وہاں جانا ہوا تھا لہٰذا کافی تبدیلیاں آگئی تھیں اس وجہ سے راستہ بھٹک گیا، جب اس کا احساس ہوا تو ایک شخص کو بتایا کہ شبیہ حیدر کے گھر جانا ہے، اْس کا نام سن کر اْس شخص نے کہا کہ میرے ساتھ آئیں اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سوٹ کیس کافی وزنی ہے میرے ہاتھ سے لے لیا اور چند منٹوں میں مجھے میری منزل تک پہنچا دیا۔

اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ، اعلیٰ اخلاق، ہنس مکھ طبیعت، وضع داری اور سماجی خدمات کے حوالے سے شبیہ حیدر نہ صرف چک جھمرہ بلکہ اْس کی مضافاتی بستیوں میں بھی نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا، اُس نے اپنی زندگی میں محبتیں بانٹیں اور جواب میں اْسے بھر پور محبتیں ملیں۔ گزشتہ برس جب میں اْس سے ملا تھا تو وہ پر امید تھا کہ جلد ہی مکمل طور پر صحت یا ب ہو کر اپنے معمولات نئے سرے سے شروع کرے گا، لیکن افسوس کہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب وکامران شخص زندگی کی بازی ہار کر ہم سب کو حیران و غمگین کر گیا۔ اللہ رب العزت اُس کے درجات بلند کرے اور اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ (آمین)