شیخ رشید کہا کرتے تھے مْسلم لیگ ن سے ش اور ن نکلنے والا ہے مگر موصوف خود ہی سیاست سے نکل گئے وہ جب تک مسلم لیگ ن سے وابستہ رہے عوام میں مقبول رہے مگر جب مسلم لیگ ن سے نکلے تو سیاست ہی سے نکل گئے اْنہیں پیر پگاڑا کی طرح پیش گوئی کرنے کا بہت شوق ہے۔ بعض لوگ اْن کے شوق کو سیاسی مشغلہ کہتے ہیں جو شغل ِ رئیساں کی ایک شکل ہے۔ پیر پگاڑا کی کوئی نہ کوئی پیش گوئی درست بھی ثابت ہوا کرتی تھی مثلاً میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کو خدا حافظ کہہ کر ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی عمارت کھڑی کی تو پیر پگاڑا نے کہا تھا میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے نام سے جو جماعت بنائی ہے وہ مسلم لیگ نہیں نواز لیگ ہے اور پھر حالات نے ثابت کر دیا کہ میاں نواز شریف کی جماعت کا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں وہ اوّل و آخر نواز لیگ ہے جو اپنوں کو نوازنے کے لیے قائم کی گئی ہے مگر کب تک؟ ڈیڑھ اینٹ کی کوئی بھی عمارت ہو بالآخر زمین بوس ہونا اْس کا مقدر ہوتا ہے۔
فوج اور عدلیہ کی اوّلین ذمے داری ہے کہ قوم و مْلک کو اندورنی اور بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرے مگر قومی بد نصیبی یہ ہے کہ عدلیہ اور فوج اپنی ذمے داری کو سیاسی معاملہ کہہ کر بری الذمّہ ہو جاتے ہیں یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ فوج اور عدلیہ نے سیاست دانوں کو قومی خزانہ لْوٹنے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے اور اس چھوٹ کے نتیجے میں مْلکی معیشت کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔ قوم کی معاشی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ افسرانِ عالیٰ کو قومی خزانے سے اربوں روپے تنخواہ کے نام پر دیے جاتے ہیں اور اْن کو مفت پٹرول، مفت بجلی اور دیگر عیاشیاں دینے کے لیے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے جو ایک انتہائی سفاکانہ عمل ہے۔ عوام گاہے گاہے اس پر احتجاج کرتے رہتے ہیں مگر اْن کی فریاد پر کوئی بھی توجہ دینے پر آمادہ نہیں یوں بھی یہ ذمہ داری فوج اور عدلیہ کی ہے کہ وہ قوم کو اِن ڈاکوؤں سے نجات دلائیں۔ یہ حقیقت ناقابل ِ تردید ہے کہ جب تک شیطان کے جانشین برسرِ اقتدار رہیں گے عوام ضروریاتِ زندگی کو ترستے رہیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسرانِ بالا کو عشرت گہہ کے مکینوں کو یہ عیاشی دینے کا کیا جواز ہے؟ یہ لوگ لاکھوں روپے تنخواہ کے نام پر لیتے ہیں اور عیاشی کے لیے مْفت بجلی، مْفت پٹرول اور شاہی رہائش گاہیں بھی لیتے ہیں۔ یہ کیسا نظامِ عدل ہے کہ 17 گریڈ کے ڈپٹی کمشنر کو عشرت گہہ خْسروں مکیں بنا دیا گیا ہے اور محکمہ تعلیم سے وابستہ 20 ویں گریڈ کے پروفیسرکو یہ سہولت میسر نہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو اس حقیقت کی متقاضی ہے کہ جب تک اِن ڈاکوؤں اور لٹیروں سے نجات نہیں دلائی جاتی مْلک میں سیاسی بحران آتے رہیں گے مْلک کی معیشت اور قوم کی معاشی صورتحال اسی وقت مستحکم ہوسکتی ہے جب حکمران اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی نازبرداری کرتے رہیں گے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مْلک میں ایسا کوئی بھی ادارہ موجود ہی نہیں جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی اختیارات کا احتساب کر سکے اور جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے اْنہیں صرف اور صرف اپنی حکمرانی کے تحفظ کے سوا کسی کی پروا نہیں اگر کوئی دیانتدار اور عوام دوست حکمران اسٹیبلشمنٹ کے ناجائز اختیارا ت پر ردِ عمل تو کْجا رائے زنی کی جرأت کرے تو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقتور ہے کہ وہ جسے چاہے مسند ِ اقتدار پر براجمان کر دے جسے چاہے ایوانِ اقتدار سے باہر کردے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کے بڑے چرچے ہیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے عمران خان کی مقبولیت کا ایسا ڈھول پیٹا کہ سماعتیں کچھ اور سننے کے قابل ہی نہ رہیں۔ آج بھی یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے حالانکہ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت صرف پروپیگنڈا تھیں۔ سیاسی فْٹ پاتھ پر بیٹھے نجومیوں کی کارستانی تھی اور وہ آج بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔