یوں تو بلاول زرداری بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں اور ان کے والد محترم آصف زرداری کی آخری خواہش یہی ہے کہ وہ اپنے برخوردار کو تخت اقتدار پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پی ڈی ایم کی عبوری حکومت میں بلاول کو وزیرخارجہ بنوایا تھا کہ سرکاری خرچ پر پوری دنیا میں گھوم پھر لے اور عالمی لیڈروں کو اپنا چہرہ دکھا دے تا کہ مستقبل میں جب وہ وزیراعظم بنے تو عالمی سطح پر اجنبی نہ رہے۔ بلاول نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا میں اپنے حق میں لابنگ بھی کی اور دفتر خارجہ کو اطلاع دیے بغیر امریکا جاتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی والے ابھی تک پُرامید ہیں کہ اگلے وزیراعظم بلاول زرداری ہوں گے۔ البتہ بلاول زرداری کے لہجے سے مایوسی کا اظہار ہوتا ہے۔ انہیں گلہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کے لیے لیول پلینگ فیلڈ میسر نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی سیاسی جماعت کو بھی لیول پلینگ فیلڈ دستیاب نہیں ہے لیکن بلاول زرداری کی پیپلز پارٹی کا گلہ اس لیے بجا ہے کہ وہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قریبی حلیف کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے غیر مطمئن ہونے سے انتخابات کا سارا عمل مشکوک قرار پا سکتا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کا اعتراض بھی یہی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو مکمل طور پر کرش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے خوف سے اس پر پابندی تو نہیں لگائی جائے گی لیکن اسے الیکشن لڑنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ پی ٹی آئی کا کوئی اہم رہنما انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ بہت سے پکڑے گئے ہیں جو رہ گئے ہیں اور روپوش ہیں اگر انتخابات کے لیے منظر عام پر آئے تو دھر لیے جائیں گے لیکن پی ٹی آئی پھر بھی الیکشن میں حصہ لے گی۔ کہا جارہا ہے کہ اسے انتخابی نشان ’’بلا‘‘ نہیں ملے گا اور اسے کوئی ایسا انتخابی نشان دیا جو ووٹروں کے لیے الجھن کا باعث بنا رہے گا اور وہ اس الجھن میں اپنا ووٹ ضائع کر بیٹھیں گے لیکن ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔ اب ووٹر بہت سیانا ہوگیا ہے وہ الیکشن کمیشن کو تو الجھن میں ڈال سکتا ہے خود الجھن میں نہیں پڑ سکتا۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مقتدرہ نے چند سیٹیں پی ٹی آئی کو بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ عالمی سطح پر تنقید سے بچا جاسکے، بعد میں ان سیٹوں کو کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرلیا جائے گا۔
اب آئیے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ آخر وزارت عظمیٰ کے لیے میاں نواز شریف ہی کو واحد آپشن کیوں قرار دیا جارہا ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کا الیکشن اس کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی کھیل ہے جس میں درپردہ کئی بین الاقوامی طاقتیں بھی حصہ لیتی ہیں۔ امریکا کی دلچسپی تو ظاہر و باہر ہے وہ کھلم کھلا پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کئی گھوڑوں پر دائو لگاتا ہے۔ جو گھوڑا بھی جیت جائے اس کے پردہ میں امریکا ہی جیتتا ہے اور پاکستان پر اس کی حکمرانی برقرار رہتی ہے۔ اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے واحد آپشن میاں نواز شریف ہیں۔ جب کہ امریکا کے لیے نواز شریف بھی ہیں۔ عمران خان بھی ہیں اور بلاول زرداری بھی ہیں۔ جو بھی جیتے وہ امریکا کو گھوڑا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے میاں نواز شریف واحد آپشن اس لیے ہیں کہ وہ اپنی دانست میں انتخابات کے کھیل سے عمران خان کو آئوٹ کرچکی ہے اور بلاول اس کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ نواز شریف واحد سیاست دان ہیں جن کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پر عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی اعتبار کرتی ہے وجہ اس یہ ہے کہ وہ کاروباری آدمی ہیں اور کاروباری آدمی کو قومی مفاد سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی مرتبہ جب وہ وزیراعظم تھے تو وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی جا پہنچے تھے اور پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری رہنمائوں کو نظر انداز کرکے اپنے کاروباری دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے پائے گئے تھے۔ میاں نواز شریف نے اپنی تیسری وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارتی لیڈروں کے ساتھ ذاتی دوستی بڑھانے میں خصوصی دلچسپی لی۔ نریندر مودی کو جاتی امرا بلایا جہاں بھارتی وزیراعظم نے ان کی والدہ کی قدم بوسی کی اور ان کی نواسی کی شادی کے موقع پر تحائف دیے۔ میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ یہ دوستی کاروباری نقطہ نظر سے پروان چڑھائی۔ اس کا پاکستان کے قومی مفاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اب آئندہ انتخابات میں بھی بھارت میاں نواز شریف کے برسراقتدار آنے پر زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ پاکستان میں ایسی بھارت نواز حکومت کا قیام چاہتا ہے جو اس کے لیے مسئلہ کشمیر پر کسی پریشانی کا سبب نہ بنے اور جس کے ساتھ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو تیزی سے پروان چڑھایا جاسکے۔ بھارتی لیڈر سونیا گاندھی ایک مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ پاکستان کو اسلحہ کے زور پر فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے اسے ہمارا کلچر پہلے ہی چاروں شانے چت کرچکا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت اس حوالے سے بھارت کے لیے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے یہ بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے کلچر میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں ملکوں کے عوام ایک جیسا لباس پہنتے، ایک ہی بولی بولتے اور ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کے اسرائیل کے ساتھ بھی کاروباری تعلقات رہے ہیں اس لیے اسرائیل بھی میاں نواز شریف کے برسراقتدار آنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
بہرکیف آئندہ انتخابات کا منظر نامہ واضح ہے۔ بے شک انتخابات میں عوام ووٹ ڈالیں گے لیکن نتائج کہیں اور مرتب ہوں گے۔ جسے کوئی چیلنج نہ کرسکے گا۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری