روزنامہ ڈان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے حوالے سے خبر دی کہ مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کو کئی تجاویز موصول ہوئی ہیں جن میں 18 ویں ترمیم یکسر تبدیل کرنے سے لے کر صوبوں کے درمیان مالی وسائل کو تقسیم کا طریقہ کار تبدیل کرنا شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس آئینی شق میں ترمیم کرنے اور اسے منشور کا حصہ بنانے کے وعدے کے ساتھ انتخابی مہم میں اُترنے کے لیے تیار ہے اور قومی مالیاتی کمیشن کی ری اسٹرکچرنگ کی تجویز بھی پیش کی ہے کہ صوبوں کو منتقل کرنے والے وسائل نچلی سطح میں بلدیاتی حکومت تک پہنچیں۔ اس موقر روزنامہ کی خبر کی منشور کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تردید کی ہے جبکہ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا اس میں تبدیلی کا ارادہ ہے۔ کچھ تو ہے جس کے چرچے اور پردہ داری ہے۔ یہ وفاق کے گلے کی بنی ہڈی ترمیم 18 اپریل 2010ء کو اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے پاس کردہ بل پر دستخط کرکے 18 ویں ترمیم کی منظوری دی تھی اور یوں صدر کے ایگزیکٹیو اختیارات وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہوگئے۔ اس منظوری پر پی پی پی نے خوب بغلیں بجائیں اور اس کو صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بڑی قربانی سے گردانا گیا کہ انہوں نے صدارتی اختیارات بھی پارلیمنٹ کے قائد وزیراعظم کو منتقل کردیے۔ اس 18 ویں ترمیم کے ذریعے ضیا الحق کی آٹھویں ترمیم کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے گئے اور صدر کے 58B کے اختیارات کہ وہ اسمبلیاں توڑ کر وزیراعظم کو برخاست کرسکتے ہیں کہ خاتمے کے ساتھ پرویز مشرف کی ترمیم کے دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والا تیسری مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا کو خارج کرکے نواز شریف کی اقتدار کی راہ کشادہ کی تو خیبر پختون خوا کا نام صوبہ سرحد کو دے کر ایمل ولی خان کا دل جیت لیا۔ اور یوں ہی مارشل لا کی راہ مسدود کرنے کے لیے اس کی سزا موت کی شق کا سامان کیا گیا اور صوبوں کو اتنے محکمے و اختیارات دیے جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے اور دس بارہ سال گزرنے کے باوجود وہ ان کو سنبھال بھی نہ سکے۔ اور یوں وفاق اور صوبوں کے مشترکہ نظام حکومت کا ایسا سامان کیا کہ وفاق کا پاندان پان چھالیہ تک محدود ہوگیا۔ اس وقت این آر او کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کا نیا نیا رشتہ اور اقتدار کے بٹوارے کا معاہدہ ہوا تھا تو یہ اہم ترمیم جو آصف علی زرداری کے ماہرین قانون کی تیار کردہ شاطر ذہن کی تھی اسمبلی و سینیٹ میں قبول ہے قبول ہے کی گونج سے پاس ہوگئی اور پی پی پی سندھ نے اس پر خوب چھوارے بانٹے کہ قوم پرستوں کو ہم نے وہ کر دکھایا جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ صوبوں کو اختیارات سے لاد کر وفاق کو تہی دست کرنے کی یہ منظوری ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی پسند نہ آئی مگر جمہور کے فیصلے پر وہ دبے دبے لہجے نکتہ چین رہے۔ پھر جب عمران کو مسند اقتدار پر انہوں نے لا بٹھایا تو 2019ء میں اس ترمیم کے خدوخال حسب حال درست کرنے کے لیے خفیہ لیٹر کا تذکرہ سینیٹ میں ہوا تو پی پی پی کی طرف سے مزاحمت کا سخت موڈ دیکھ کر نئی نویلی عمران خان کی حکومت لیٹ گئی اور سینیٹ کے چیئرمین واک آئوٹ کر گئے۔
اب انتخاب کا مرحلہ آگیا ہے تو پی پی پی ایک حکمت عملی کے تحت صوبوں کے عوام کے جذبات کو ابھار کر ان کے حقوق کا چیئرمین بن کر وفاق میں حصہ طے کرنا چاہتی ہے بلکہ بلاول تو بوڑھے سیاست دانوں کو کھڈے لائن لگانے کی بات کرکے اپنے والد کے اقتدار کی دستبرداری کا برملا اعلان کرچکے ہیں تو اور بلاول ماضی قریب میں اٹھارویں ترمیم پر بات کی جاسکتی ہے کا دانہ ڈال چکے ہیں بشرطیکہ اس نوجوان خون کو جو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وزیرخارجہ سے وزیراعظم کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں اور یوں والد کی تمنا کا سامان بھی سہولت کاری دے دی جائے۔ یوں اٹھارویں ترمیم جو اقتدار کے ترپ کا پتا بن گئی ہے ہر دو بڑی پارٹیاں اس کو استعمال کرکے اقتدار کی بازی جیتنے کے لیے بظاہر اور پس پردہ گیم میں مصروف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر تو کھل کر اس کی اصلاح کی بات کرچکے ہیں اور یہ کہا بھی جاچکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کی بخشش میں یہ شرط ہو کہ اٹھارویں ترمیم میں ان کی خواہش کا سامان ہوگا اس کے لیے چاروں صوبوں کی آشیرباد کی ضرورت درکار ہوگی اور اس ٹیڑھی کھیر سے نمٹنا آسان نہ ہوگا۔ انتخابی معرکہ اگر ہوا تو اقتدار کا معرکہ اٹھارویں ترمیم پر سر ہوگا۔