وطنِ عزیز میں مروج جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو کسی بزرگ کے اس قول کو قولِ زریں ماننا پڑے گا۔ دیکھیے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ نوٹ مانگے یا ووٹ مانگے، مانگنے والا بھکاری ہوتا ہے یوں تو ہمارے ہاں بھکاریوں کی کمی نہیں، کوئی عادتاً مانگتا ہے، کوئی شوقیہ مانگتا ہے اورکچھ لوگ موسمی بھکاری ہوتے ہیں ایسے بھکاری عموماً ماہِ رمضان میں دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دان بھی ایسے ہی بھکاری ہیں جو عموماً انتخابات کے دوران دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دروازے پر دستک دے کر بھیک مانگتے ہیں اور دعائیں دینے کے بجائے وعدے کرتے ہیں ان میں قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ بھکاریوں کی دْعائیں قبول نہیں ہوتیں اور سیاست دانوں کے وعدے پایہ تکمیل نہیں پہنچتے۔ ووٹ دینے والے ہمیشہ خلا میں معلق رہتے ہیں اور نوٹ دینے والے بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہوتے ہیں۔
بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ کسی کو وزیر ِ اعظم نامزد کر کے الیکشن کرانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وزراتِ عظمیٰ کا دوسرا اْمیدوار دھرنا دے گا اور اس دھرنے کا نقصان مْلک کو ہوگا۔ ان کے والد ِ محترم کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو کسی بھی صورت میں وزیر ِ اعظم بننے نہیں دیں گے اور موصوف فرما رہے ہیں کہ اگر اْنہیں وزارتِ عظمیٰ کی گود سے محروم کیا گیا تو دھرنا دھرنا کھیلیں گے اور اِس کا نقصان مْلک و قوم کا ہوگا۔ گویا! مْلک و قوم کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہے ہیں کھیلن کوچاند مانگنے والوں کی سرشت یہی ہے کہ اگر چاند ملنے کی اْمید نہ ہو تو خود کھیلتے ہیں نہ دوسروں کو کھیلنے دیتے ہیں۔ اس تناظر میں سیاست دانوں کی ذہنیت کا جائزہ لیا جائے تو حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وطن ِ عزیز کے سیاست دان محض اس لیے اقتدار کی تگ و تاز کرتے ہیں تاکہ مْلک کی وسائل پر قابض ہوسکیں اور المیہ یہی ہے کہ تمام سیاست دان لاکھ اختلافات کے باوجود یکساں ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں سو، کسی سیاست دان کا یہ کہنا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گا سیاسی بیان کے سِوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ذہنیت کبھی نہیں بدلتی۔
بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ وہ عوام کے لاڈلے بننا چاہتے ہیں اس سوچ کی تعریف و تحسین کی جانی چاہیے مگر موصوف کو یہ ثبوت دینا ہوگا کہ وہ عوام کے لاڈلے بننا چاہتے ہیں۔ اور اس کی ایک یہی صورت ہے کہ اپنی دولت میں عوام کو بھی حصّہ دار بنا لیں کیونکہ جو دولت اِن کے بینک اکاؤنٹ میں ہے وہ قوم کی دولت ہے جو ان کے بڑوں نے بڑی چالاکی سے لْوٹی ہے اگر قوم کو لْوٹی ہوئی دولت واپس کر دیں تو قوم کے لاڈلے بن سکتے ہیں اور تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن سکتے ہیں بصورت دیگر تاریخ کا کوڑے دان اْن کا منتظر ہے۔
بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے نام پر 75 سال سے جو تماشا لگا ہوا ہے اْسے بند ہونا چاہیے موصوف نے سینئر سیاست دانوں کو مشورہ دیا ہے کہ گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں یہی اْن کی عمر کا تقاضا ہے۔ کیا موصوف نے اپنے والد ِ محترم کو بھی یہی مشورہ دیا ہے؟ اْنہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اْنہیں آزما کر دیکھیں وہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے ووٹ کاسٹ کرتے وقت عوام کو سوچنا چاہیے کہ نااہل سیاست دانوں کو آزمانا ایک ہی سوارخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ لو گ برسرِ اقتدار آکر اپنی روّش نہیں بدلیں گے۔ بلاول زرداری نے قوم سے جو اپیل کی ہے وہ قابل ِ توجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 75 برسوں سے حکمرانی کرنے والے کون ہیں؟ اگر وہ سب نااہل ہیں تو اْن کی انگلی پکڑ کر چلنے والے کو آزمانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اسی طرح سانپ کا ڈسا سپولیے سے ڈرتا ہے۔ بلاول زرداری سانپوں سے محتاط رہنے کی اپیل کر رہے ہیں اور سپولیے کو دودھ پلانے کی اپیل بھی کر رہے ہیں۔ کیا واقعی! وہ قوم کو اتنا نادان اور کم سمجھ سمجھنے کی علت میں مبتلا ہیں موصوف کو یقین کر لینا چاہیے کہ سانپ کے ڈسے سپولیے کو دودھ نہیں پلا سکتے۔