محمد نواز شریف جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوا اب اپنی مقبولیت کے اضافے کے لیے سرگرداں ہیں۔ بلوچستان کے جیتنے والے سیاسی کھلاڑی اُن کے مچان پر آچکے ہیں۔ پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا صوبہ سندھ ہے جہاں پی پی پی نے 2008ء سے 2023ء تک مسلسل حکومت کی ہے اس دورانیے میں پی پی پی نے جہاں بیوروکریسی میں اپنے حمایتوں کو بھرتی کرکے جڑیں مضبوط کی ہیں اُن کو کراچی حیدر آباد میں ملازمتیں دے کر مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے پلان پر عمل کیا اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی سے اپنا میئر منتخب کراکر کامیاب تجربہ بھی کر ڈالا۔ سندھ جس کو پی پی پی اپنی سیاسی جاگیر سمجھتی ہے محمد نواز شریف کی متوقع وفاقی حکومت میں آنکھ کا کانٹا ثابت ہوگا۔ سو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سندھ میں اپنے حمایتوں کی حکومت قائم کرنے کی تگ و دو شروع کردی ہے۔ مقتدر حلقوں کی پسندیدہ جماعتوں سے رابطہ بڑھانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جی ڈی اے سندھ میں پی پی پی کا مخالف اتحاد جن حلقوں نے تشکیل دیا انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں ان کو سندھ میں حکومت دلانے کا وعدہ کیا اور یہ اس وعدے پر یقین کامل کرکے کابینہ تک کی تشکیل کا پلان بنانے میں انتخاب سے قبل ہی مصروف ہوگئے مگر اس مرحلے میں آصف علی زرداری کا قول درست ثابت ہوا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یوں پھر انتخابی عمل نے ثابت کیا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ جی ڈی اے دودھ کا جلا ہوا ہے وہ اب چھاچھ کو بھی پھونک کر پینے کی سوچے ہوئے ہے۔ جی ڈی اے کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ فنکشنل 2018ء کے انتخابات میں اُن دس نشستوں سے محروم ہوگئی یا کردی گئی جہاں سے وہ کامیاب ہوتی آئی تھی۔ اب مسلم لیگ (ن) سے اس کا مطالبہ ہوگا کہ ان دس سیٹوں پر اس کا حق تسلیم کرکے مسلم لیگ (ن) بھرپور تعاون سے کامیابی کو یقینی بنانے کا وعدہ کرے اور اپنا نمائندہ ان حلقوں میں نہ کھڑا کرے۔ پیر صاحب پگارو کی فنکشنل مسلم لیگ کا یہ مطالبہ مسلم لیگ (ن) کے لیے قبول کرنے کے لیے کوئی اور چارہ کار نہیں۔
دوسری طرف جمعیت علمائِ اسلام سندھ میں متحرک ہے جس کے قائد مولانا فضل الرحمن نے نوشہرہ کے جلسہ عام میں یہ اعتراف کیا کہ 75 سال انہوں نے جو کہا وہ ہم نے کیا اب تھک گئے ہیں اور اب مزید ان عناصر کے منافقانہ کردار کی پیروی کرنے کو تیار نہیں، اب وقت آگیا ہے کہ نئے رُخ سے سوچا جائے، سو اس قسم کی سوچ پارٹی میں سندھ میں نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے کھانے میں نمک مقدار کے بجائے کھانڈ مقدار حصہ وصول کرے یہ بھی دعا اور مداری کی دوا کے ساتھ شریک مذاکرات ہے، رہے قوم پرست جن میں جی ایم سید کے وارثوں کی سندھ یونائٹیڈ پارٹی بھی حصہ بقدر جثہ کی مسلم لیگ (ن) سے طلب گار ہے، ماضی میں جلال محمود شاہ سندھ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر رہے ہیں کم از کم اتنا تو ملے، قادر مگسی بھی پی پی پی سے منہ موڑے مسلم لیگ (ن) کی طرف چہرہ کیے ہوئے ہیں اور بتارہے ہیں کہ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ یوں مسلم لیگ (ن) بھان متی کا کنبہ جوڑنے میں مصروف ہے۔ مقابلہ پی پی پی سے جو کرنا ٹھیرا جس کے سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی سے اتحاد نہیں کرے گی اور اکیلے انتخاب لڑے گی اور ہمارے مقابلے میں 13 جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا ہے۔ پی پی پی کو تجزیہ نگاروں کے بقول پریشانی ٹکٹ کی تقسیم کے مرحلے میں درپیش ہوگی کیونکہ اس کے پاس بھرتی کے امیدوار بڑھتے جارہے ہیں۔
گھوٹکی کا مہر خاندان جو منقسم تھا اب ایک جان ہو کر پی پی پی کو پیارا ہوگیا۔ سردار علی، گوہر خان مہر اور شکارپور کے غوث بخش مہر نے پی پی کی بیعت کرلی مگر سیاسی حلقے اس کو حتمی قرار نہیں دے رہے ہیں۔ یہ ریورس گیئر بھی لگا سکتے ہیں، ماضی میں بھی ایسا ہوا کہ علی گوہر مہر نے پی پی پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے سے انکار کردیا اب پی پی مضبوط بندھن کی دعویدار ہے۔ مگر وہ بھولے ہوئے ہیں کہ سیزن بدلنے پر تن کے لباس تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لو علی گوہر مہر کی شمولیت کا ردعمل بھی یوں آگیا کہ ضلع گھوٹکی میں ان کی شمولیت پر جلسہ خوشی ہوا اس میں پی پی پی کے سابق ایم پی اے جام ممتاز ڈھر اور سابق صوبائی وزیر جام اکرام ڈھر نے شرکت نہیں کی یہ دونوں بھائی اس بھرتی پر خوش نہیں۔ مگر اب جب بھرتی شروع ہے تو رخصتی کی بھی خبریں ہیں۔ ضلع بدین کے سابق ایم این اے کمال چانگ یہ اعلان کرچکے کہ اگر پی پی پی نے جو ان کی پارٹی ہے ٹکٹ نہ دیا تو وہ پی پی پی مقابل انتخاب لڑیں گے۔ یوں پی پی پی 2018ء کے عام انتخاب میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے شہریار شر جو پلٹا کھا کر پی پی پی سے لپٹ گئے اس مرتبہ پرامید ہیں کہ اس بغاوت پر وہ ٹکٹ کے حقدار ہوں گے، وہ ٹکٹ پالیتے ہیں تو جیالے جام ممتاز ڈھر ڈھیر ہوجائیں، یوں ہی پی ٹی آئی کی مقبولیت کی مہر پر کامیاب ہونے والے اسلم ابڑو سندھ میں پی پی پی کی حکومت کا فیض پانے کے لیے قریب ہوگئے۔ جیکب آباد سے وہ پی پی پی کا ٹکٹ اس مول پر حاصل کرنے میں کامیاب ٹھیرے تو اُن کا جو پی پی شجر سے چمٹے ہوئے ہیں کیا بنے گا، جو ٹکٹ کے لیے پارٹی فنڈ کے ساتھ دن گن رہے تھے۔ پی پی پی کے گڑھ ضلع لاڑکانہ میں جی ڈی اے کے امیدوار معظم عباسی نے 2018ء کے انتخاب میں کامیاب ہو کر شرمناک ڈینٹ پی پی کو لگایا تو دوسری طرف نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سابق ایم پی اے مہتاب اکبر راشدی اُن کے شوہر اکبر راشدی نے فنکشنل مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر پی پی پی میں شامل ہو کر اس زخم کا مرہم بننے کا اس امید پر فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ اس قربانی کے عوض ان کے بیٹے رافع راشدی کو ٹکٹ ملے۔ ضلع سجاول کے پرانے سیاسی کھلاڑی ملکانی کو اس مرتبہ ٹکٹ ملتا ہے یا وہ علی حسن زرداری کے ہاتھوں ناک آئوٹ ہو کر ٹکٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں نے ضلع ٹھٹھہ، ضلع خیرپور کی ایک ایک صوبائی سیٹ کم کرکے حلقہ تنگ کردیا ہے۔
2018ء کے عام انتخاب میں میرپور خاص سے کامیاب ہونے والے پرانے جیالے علی نواز شاہ نے مسلم لیگ (ن) سے رابطہ کیا ہے۔ سیاست میں گہما گہمی کے ساتھ بھگدڑ بھی مچی ہوئی ہے۔ مقتدر حلقوں کا موڈ دیکھا جارہا ہے۔ بلاول بوڑھے وزیراعظم کے بجائے خود کو نوجوان وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ نواز شریف ماضی کی خدمات دہرا رہے ہیں اور وہ اگلی باری ہماری کا بیان دے کر قوم کو باری کے بخاری کے خبر دے کر یہ بتا چکے ہیں کہ ہماری باری اگلی ہے اور اس مرتبہ کی بازی ہماری نہیں ہے اس سے بھی منفی اثرات سیاسی اکھاڑے میں دیکھے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے بعد اب سندھ کے دورے کی نواز شریف کی منصوبہ بندی میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سرگرم ہیں کہ وہ دورہ نواز شریف کے موقع پر ان کی جھولی کامیاب ہونے والی امیدواروں سے بھر دیں۔ محمد نواز شریف کو 27 سال بعد سندھ کی یاد ستائی ہے، وہ بھی جب سر پہ آن پڑی ہے۔ سندھ کی سیاست کے پل سے بہت سارا پانی گزر چکا ہے۔ سندھ کی سیاست جو تالپور، جتوئی، شیرازی، مہر اور سرداروں کے گرد گھومتی تھی اب مفاد کے گرد رقص کررہی ہے۔ ووٹ لو گے تو کیا دو گے۔ پی پی پی نے پندرہ سال کے اقتدار میں جو نوجوان ہوتے ہیں وہ کسی بھی مرلی کے آگے رقص کرنے کو تیار نہیں جب تک اس کے معاوضے کا پختہ یقین نہ ہو۔ خیر سے مسلم لیگ (ن) ہو یا پی پی پی ان کے پاس سرمایہ کی کوئی کمی نہیں اور آنے والے انتخابات سندھ میں خوب سرمائے کا کھیل ہو گا۔ ٹکٹ بکیں گے، ووٹ خریدے جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے دورہ سندھ کے موقع پر ان کی جھولی بھرنے کا بندوبست بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ سندھ کی سیاست اور کراچی کے موسم کا پتا نہیں چلتا ہے یہ پل پل میں بدلتا ہے۔