اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹس ایسے مقدمات جلد مکمل کریں، جن میں سزا کم ہوتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی زیرسربراہی جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کی، جس میں درخواست گزار نے ریاست کو پراسیکیوٹر جنرل اے این ایف خیبر پختونخوا کے توسط سے فریق بنایا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن مقدمات میں کم سزا ہوتی ہے، ان کے ٹرائل عدالتیں جلد ازجلد مکمل کریں اور کیسز کو غیر ضروری التوا نہ دیں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ یہ حکم نامہ تمام عدالتوں میں تقسیم کے لیے رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کو بھجوایا جائے۔
درخواست گزار کی جانب سے مسز فرحانہ ناز مروت بطور وکیل پشاور رجسٹری سے وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئیں جب کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے اسپیشل پراسیکیوٹرعدالت میں موجود تھے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم 5 ماہ سے قید میں ہے، کیس میں 7 سرکاری گواہ ہیں اور ابھی تک ٹرائل شروع نہیں ہوا۔جن دفعات کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی سزا 5 سال ہے۔ ملزم کے قبضے سے منشیات کی 500 ٹیبلٹس برآمد ہوئی تھیں۔
چیف جسٹس نے اے این ایف اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ برآمد ہونے والی 500ٹیبلٹس کی مارکیٹ ویلیو کیا ہے، جس پر پراسکیوٹر نے لاعلمی کااظہار کیا۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسپیشل پراسیکیوٹر ہیں اور منشیات کی مارکیٹ ویلیو ہی کا نہیں معلوم۔ اے این ایک چھوٹا ساشعبہ ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ملزم کی ضمانت منظور کر لی ۔عدالت نے قراردیا کہ اگر ملزم ٹرائل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے تو پراسیکیوشن ملزم کی ضمانت منسوخی کے لیے درخواست دائر کرسکتی ہے۔