وطن ِ عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر مقتدر شخص اپنے ادارے کی بہتری کے لیے نقشہ لے کر آتا ہے مگر جب جاتا ہے تو ادارہ پہلے سے زیادہ خستہ حال ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عزت مآب فائز عیسیٰ بھی عدلیہ کے نظام میں بہتری کے لیے ایک نقشہ لے کر آئے تھے خدا جانے وہ نقشہ کہاں گیا؟ مگر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عدالتی نظام بد سے بدتر ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر شخصیات اپنے اختیارات کو ہاتھی کا پاؤں سمجھتی ہیں۔
بہاولپور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی نے جسٹس فائز عیسیٰ کی آمد کو آمد ِ بہار قرار دیا تھا اْ ن کا کہنا تھا کہ لیفٹ اوور کا ہتھوڑا توڑ دیا جائے گا پیشی در پیشی کا اذیت ناک کھیل بند ہو جائے گا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اللہ تعالیٰ کی نیابت بدستور شیطان کی جان نشینی بنی ہوئی ہے جج صاحبان پیشی در پیشی کا مکروہ کھیل کھیل رہے ہیں اور جسٹس صاحبان لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا رہے ہیں۔
19 ستمبر 2023 کو بابا جی کی پیشی تھی مگر مخالف وکیل نے بیماری کا بہانہ بنا کر بحث کرنے سے معذرت طلب کی تو بابا جی کے وکیل نے کہا یہ حضرت تو 10 برسوں سے بحث سے گریزاں ہیں۔ خدا جانے یہ کب بحث پر آمادہ ہوں گے؟ یہ سن کر جسٹس صاحب نے ریڈر سے کہا یہ بتاؤ کہ 10 برسوں میں کتنی بار عدالت میں آئے ہیں؟ ریڈر نے کہا کہ 10 سے 15 مرتبہ عدالت میں آئے ہیں مگر جب آواز پڑتی ہے تو اِن کا منشی کہتا ہے کہ وہ دوسری عدالت میں مصروف ہیں۔ فائل انتظار میں رکھ دی جاتی ہے اور پھر لیفٹ اوور ہوجاتی ہے۔ جسٹس صاحب نے 10 ہزار روپے جرمانہ کیا اور 13 نومبر 2023 کی پیشی دیدی۔ مخالف وکیل نے کلائنٹ سے جرمانہ وصول کر لیا ہے مگر جمع نہیں کرایا۔ 13 نومبر 2023 کی پیشی پر بابا جی کے وکیل شادی میں شرکت کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے اْن کے منشی نے چھٹی کی درخواست پیش کی جسے شرفِ قبولیت سے نوازا گیا مگر نئی پیشی سے درگزر کیا گیا حالانکہ چھٹی کی درخواست منظور کرنے کے ساتھ 8 سے 10 دن کی پیشی دے دی جاتی ہے مگر ہمارے جسٹس صاحبان اتنے سست الوجود ہیں کہ قلم اْٹھانا پسند ہی نہیں کرتے البتہ لیفٹ اوور کا ہتھوڑا ہمہ وقت اْن کے دست ِ مبارک میں رہتا ہے۔ بابا جی پیشی کے لیے سول برانچ گئے تو کہا گیا جسٹس صاحب نے حکم دیا ہے کہ وہی مقدمات پیش کیے جائیں جن کی تاریخ اْن کے دست ِ مبارک نے دی ہے اس لیے آپ کو فی الحال پیشی نہیں دی جاسکتی بابا جی حیران ہیں کہ یہ کیسا نظام عدل ہے کہ فرائض ِ منصبی سے غفلت کے مرتکب جسٹس صاحب ہوئے ہیں اور سزا اْنہیں دی گئی ہے۔ یہ ساری خرابی اس لیے ہے کہ جسٹس صاحبان کی کارکردگی قانون کے مطابق نہیں جب قانون جج اور جسٹس صاحبان کے تابع ہوجائے تو انصاف نایاب ہو جاتا ہے۔ بابا جی اس صورتحال سے سخت دلبرداشتہ ہیں اْن کا کہنا ہے کہ نظامِ عدل خر ِ عیسیٰ بنا ہوا ہے۔ شنید ہے کہ تمام ہائی کورٹس کو عدالت عظمیٰ نے ہدایت جاری کی ہے کہ روزانہ کی کارکردگی سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا جائے مگر اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ عمل کیا جاتا تو کوئی بھی جسٹس لیفٹ اوور کا ہتھوڑا نہ برساتا۔ باباجی اس بات پر بھی سخت حیران ہیں کہ اْن کے خلاف جو مقدمہ زیر ِ التوا ہے اِسے محکمہ مال رجسٹری آفس سول کورٹ اور سیشن کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کردیا ہے۔ اْصولی طور پر تو ہائی کورٹ کو بھی اِس مقدمہ کی سماعت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بغیر ثبوت کے کسی مقدمہ کی سماعت کا جواز نہ تو قانونی طور پر درست ہے اور نہ اخلاقی طور پر اِس کی کوئی حیثیت ہے۔ خدا جانے قانون کی نظر میں ایسے مقدمات کی کیا حثیت ہے؟ مگر اخلاقی طور پر یہ ایک ایسا سنگین جرم ہے جو ناقابل ِ معافی ہے کیونکہ ایسے مقدمات بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
معافی خدائی وصف ہے جس کی بنیاد توفیق پر ہوتی ہے اور توفیق خدا کی نیابت کرنے والوں کا مقسوم ہوتی ہے شیطان کی جان نشینی کرنے والے اس سے محروم ہوتے ہیں۔
سرخرو ہونے کو ایک سیلابِ خوں درکار ہے
جب بھی یہ دریا چڑھے گا پار اْتر جائیں گے لوگ