امریکی ایجنٹ حکمرانوں کا بھی بائیکاٹ کریں

811

دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اپیلیں کی گئی ہیں کہ اسرائیلی، امریکی اور یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں ان مصنوعات کی فروخت میں نمایاں کمی ہوگئی ہے لیکن پاکستانی مصنوعات یا پاکستانی کہلانے والی مصنوعات کے پاکستانی مالکان نے اپنی روایتی ہوشیاری دکھائی اور کوئی مقدار کم کرنے لگا اور کسی نے قیمت بڑھادی۔ اوّل تو ان اشیا کی متبادل پاکستانی مصنوعات بھی بہت کم ہیں جو امریکی اسرائیلی اور یورپی ممالک بناتے ہیں اور جو ہیں ان کا معیار اچھا نہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ایسا کوئی موقع آتا ہے تو پاکستانی تاجر منافع کے چکر میں اپنی مصنوعات بھی مہنگی کردیتے ہیں اور ان ممالک کی مصنوعات کو بھی ٹھکانے لگانے کے طریقے اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ پاکستان ایسی مصنوعات کیوں تیار نہیں کرتا جو روزمرہ استعمال کی ہیں، نہ ایسی اسرائیلی امریکی کمپنیوں سے اچھی نہیں تو کم از کم قابل استعمال تو ہوں لیکن بہت سی اشیا کا متبادل سرے سے ملتا ہی نہیں۔ اس کا سبب ٹیکنالوجی، سرمایہ یا مشینری وغیرہ نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ایسی کوئی حکومت ہی نہیں جو یہ تخمینہ لگاتی ہو کہ ملک میں کس چیز کی کتنی ضرورت ہے، کون سی چیز باہر سے منگوائی جانی چاہیے اور کون سی چیز منگوانے سے ملکی صنعت کا بیڑا غرق ہوگا۔ پاکستان میں کسی ایک حکمران کو الزام نہیں دیا جاسکتا سب ہی اس ڈوبنے والی کشتی کے سوار اور ملاح ہیں جسے قومی معیشت کہتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جب کشتی ڈوبتی ہے تو اس میں ان کا کچھ نہیں ڈوبتا بلکہ وہ چھلانگ لگا کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں، ان کے پاس ملک میں بھی بڑے بڑے محفوظ جزیرے ہیں۔

بات بائیکاٹ سے شروع ہوئی اور حکمرانوں اور معیشت پر چلی گئی۔ جی… ان دونوں کا گہرا تعلق ہے یہ حکمران ملک کا نظام، معیشت، عوامی حالت یا کچھ بھی ٹھیک کرنے کے لیے اقتدار میں نہیں آتے ان سب کے ہمیشہ اپنے مقاصد رہے ہیں۔ یہ اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں، ہر چیز میں نام عوام کا لیتے ہیں لیکن عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ اور یہ پاکستانی عوام کے نمائندے بھی نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کو اگر دیکھا جائے تو سب کے ڈانڈے باہر سے ملتے ہیں۔ ان کے تقرر ان کو حکمرانی دینے یا نہ دینے کے احکامات اور فیصلے واشنگٹن لندن یا کسی اور جگہ ہوتے ہیں، پاکستان میں نہیں تو اگر پاکستانی قوم بائیکاٹ کرنا چاہتی ہے امریکا اسرائیل پاکستان دشمن ممالک توہین رسالت کے مرتکب ممالک وغیرہ کا تو ان کے نمائندے بلکہ ان کی مصنوعات سیاسی پارٹیوں، نمائندوں اور لیڈروں کا بائیکاٹ کریں، یقین کریں آدھے سے زیادہ مسائل تو یہ حکمران پیدا کرتے ہیں۔ ان کا بائیکاٹ امریکی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی راہ میں بڑی آسانی پیدا کرے گا۔ پھر جو حکمران ملکی مصنوعات میں سے ہوگا اس کو پتا ہوگا کہ ملک میں کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز سے ملکی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔ کیا چیز منگوانے سے ملکی صنعت کو نقصان ہوگا۔ پھر وہ بجلی چوری، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزوں کو بھی پکڑے گا چونکہ وہ پاکستانی مصنوع ہے اس لیے اسے ملک سے باہر نہیں بھاگنا اسے یہیں رہنا ہے اور لوگوں کا سامنا کرنا ہے تو پھر وہ درست فیصلے کرے گا۔ اور جس کو ملک سے بھاگنا اور حالات سازگار ہونے یا بنانے تک باہر رہنا ہے تو وہ ہر وہ حکم بجا لائے گا جو امریکا، اسرائیل، لندن یا کسی بھی مغربی ملک سے آئے گا، حتیٰ کہ بھارت کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دے گا۔

پاکستان میں امریکی، مغربی اور اسرائیلی ایجنٹ حکمرانوں کی مثالیں تلاش نہیں کرنی پڑیں گی۔ ملک سے باہر بھاگ بھاگ کر حالات بہتر ہونے کے بعد واپس آنے والوں کو لوگ روزانہ دیکھتے ہیں، جام صادق ملک بھاگ گئے، واپس آئے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر چلے ہی گئے۔ صوبہ سرحد سے لوگ ملک سے بھاگ گئے اور واپس آکر وی آئی پی بنے، بلوچستان کے لوگ ملک سے باہر گئے اور واپس آکر بڑے مناصب سنبھالے، یہاں تک کہ سیاسی پناہ گزین بھی پاکستان آکر منصب پر براجمان ہوگئے۔ سندھ خصوصاً کراچی تو اس معاملے میں بہت ہی زرخیز ہے۔ الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کی تقریباً پوری قیادت (مختلف ادوار کی) ملک سے باہر، ملک کے اندر، جیل کے اندر، جیل سے باہر، ایوان اقتدار کے اندر، یہ کھیل اب تک جاری ہے۔ ملک سے بھاگا ہوا ایم کیو ایم کا لیڈر مصطفی کمال بھاگا بھاگا آیا اور گورنر عشرت العباد اور الطاف حسین پر توپ کے دہانے کھول دیے۔ بڑے انعام کی توقع تھی لیکن ان سے یہی کام لینا تھا۔ خود گورنر عشرت العباد باہر سے آئے اپنے کام سے آئے۔ کام مکمل ہوا باہر چلے گئے۔ وسیم اختر، عامر خان، رئوف صدیقی اور نہ جانے کون کون… جب حالات (ان کے لیے) خراب ہوں تو یہ بیرون ملک چلے جائیں تازہ ہدایات نیا پروجیکٹ لے کر آئیں اسے انجام دیں اور واپس چلے جائیں۔ کب تک بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما، میاں نواز شریف، شہباز شریف، اسحق ڈار اور دیگر رہنما ان دونوں پارٹیوں سے مستعار لیے گئے بہت سے پی ٹی آئی رہنما، یہ پاکستانی مصنوعات نہیں ہیں۔ بالکل کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستانی فرنچائز کی میڈاِن پاکستان مصنوعات ہیں۔ ان کی فروخت اور خرید پاکستان میں ہوتی ہے منافع باہر جاتا ہے۔ اب ان حالات میں قوم بائیکاٹ کرے تو چند کروڑ یا چند ارب روپے کی غیر ملکی مصنوعات کا یہ بھی ضرور کرے۔ لیکن اصل بائیکاٹ ان میڈ ان پاکستانی غیر ملکی لیڈروں اور پارٹیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جس روز حقیقی میڈ ان پاکستان پارٹی کے حقیقی پاکستانی لوگ اقتدار میں آگئے پاکستان صحیح معنوں میں عالمی طاقت بن جائے گا۔ پھر غیر ملکی اشیا کی درآمدات بھی کم ہوجائیں گی، برصغیر نے تو ایک ایسٹ انڈیا کمپنی بھگتی تھی لیکن پاکستان میں تو درجنوں ایسی کمپنیاں ہیں جو اپنی شرائط پر کام کرتی ہیں۔ منافع ملک سے باہر لے جاتی ہیں اور شہریوں کو لوٹتی ہیں۔ میڈ ان پاکستان حکمرانوں کو لے آئیں تو کے الیکٹرک جیسے ادارے نہ آئیں، پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے وغیرہ تباہ نہ ہوں، ریکوڈک جیسے معاہدے نہ ہوں، یہ اپنے بیرونی آقائوں کے اشارے پر ہر کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں گیس ہے یہ نہیں نکالتے، تیل ہے یہ نہیں نکالتے، کوئلہ ہے یہ نہیں نکالتے، زرعی زمین زرخیز ہے لیکن یہ اسے بنجر بنارہے ہیں، رہائشی پروجیکٹ بنارہے ہیں، بہترین زرعی پیداوار ہے لیکن اسے برآمد کرنے میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ یہ پاکستانی قوم کے لیے فصلوں کے کیڑے سنڈی کی طرح ہیں اس سنڈی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔