عدالت عظمیٰ کے احکامات پر بالآخر 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ 2003ء میں ڈاکٹر عافیہ کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کے بعد یہ چوتھے عام انتخابات ہونے جار ہے ہیں۔ گزشتہ تین انتخابات کے نتیجے میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا موقع مل چکا ہے، اس دوران ملک کی سیاست، معیشت اور اخلاقیات کا اس سے زیادہ پستی میں جانا ممکن نہیں تھا۔ آصف علی زرداری، نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف کے دور میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور انہیں وطن واپس لانے کا مطالبہ پاکستان کے تمام صوبوں، شہروں اور دیہاتوں کے لوگ کرتے رہے ہیں۔ عام پاکستانی شہریوں کے یہ مطالبات ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار تک پہنچتے تو ضرور تھے مگر وہ ’’صم بکم عمی فھم لا یعقلون‘‘ کی تفسیر بنے رہے۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ الیکشن سے قبل ہی ہر پاکستانی کو یقین ہوجاتا (یا دلا دیا) ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں فلاں سیاسی پارٹی کی حکومت قائم ہوگی اور فلاں شخص ملک کا آئندہ وزیراعظم بنے گا۔ جب 2022ء میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے نتیجے میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف وزیراعظم بنے تو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے قوم کو تاثر دینا شروع کردیا کہ ملک کا اگلا وزیراعظم بلاول زرداری بننے والا ہے اور یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ ریاست کے تمام ادارے زرداری صاحب کے ماتحت کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کو ان کے تین کمسن بچوں سمیت پانچ سال تک جبری لاپتا رکھا گیا۔ 2008ء میں جب انہیں منظر عام پر لایا گیا تو فیس سیونگ کے لیے ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا مبینہ الزام بھی تھوپ دیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ انہوں نے ہی ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی قرار دیا تھا۔ جب ڈاکٹر عافیہ کی افغانستان میں موجودگی ظاہر کی گئی وہی انہیں پاکستان واپس لانے کا بہترین وقت اور موقع تھا۔ مگر کرپٹ، بزدل اور نااہل قیادت خاموش رہی اور امریکیوں نے عافیہ کو غیرقانونی طور پر امریکا منتقل کردیا۔ ڈاکٹر عافیہ کو قانونی دفاع کا حق دیے بغیر امریکی عدالت نے 86 سال کی سزا بھی پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں سنائی گئی تھی۔ ان کے بعد راجا پرویز اشرف مختصر عرصہ کے لیے وزیراعظم بنے۔ پیپلزپارٹی کو اس کے بعد بھی ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کے مواقع میسر آئے (ریمنڈ ڈیوس کے بدلے) مگر تمام مواقع ضائع کر دیے گئے۔
2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف وزیراعظم بنے۔ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بیٹی مریم سے گورنر ہائوس سندھ میں ملاقات کی۔ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے گھٹنوں کو چھو کر وعدہ کیا کہ وہ عافیہ کو وطن واپس لائیں گے اور ڈاکٹر عافیہ کی بیٹی مریم کو اپنی بیٹی قرار دیا۔ مگر وہ بھی ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس نہیں لاسکے۔ اس کے بعد 2018ء میں عام انتخابات ہوئے۔ اس مرتبہ عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ انہوں نے طویل عرصہ تک اپوزیشن میں رہ کر سیاست کی۔ انہیں پاکستانی سیاست میں پزیرائی ڈاکٹر عافیہ کا ایشو اٹھانے پر ہی ملی تھی۔ انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے عافیہ کی رہائی کے لیے جس انداز میں آواز اٹھائی تھی اس کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کو رہا کرانے کا فریضہ ادا کریں گے۔ مگر بدقسمتی سے سب سے زیادہ بزدلی عمران خان نے ہی دکھائی۔ ان کے امریکی دورے میں صدر ٹرمپ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران معروف پاکستانی صحافی طیبہ ضیاء چیمہ کو ہاتھ کے اشارے سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق سوال کرنے سے روکنے کے عمل کو کیمرے نے محفوظ کرلیا جس نے ہمیشہ کے لیے ان کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
2003ء سے عام انتخابات کے انعقاد کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسے یقینا جاری رہنا چاہیے۔ مگر یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ کسی سیاسی جماعت اور اس کے نامزد کردہ وزیراعظم نے عزت کے ساتھ مدت پوری نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی وزیراعظم اقتدارکے دوران عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اس ملک کی اکثریت ووٹ کاسٹ کرنے اس لیے نہیں جاتی ہے کہ ان کا موجودہ انتخابی نظام پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے نتیجے میں برسراقتدار آتی ہیں کیونکہ عوام دیکھتے ہیں کہ برسراقتدار سیاسی جماعت اور اس کے اتحادیوں کو عوام کے مسائل حل کرنے اور انہیں ریلیف فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے اور جب ان سیاسی جماعتوں کے قائدین اقتدار سے باہر ہوجاتے ہیں یا کردیے جاتے ہیں تو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھیراتے ہیں۔ وہ اداروں کے بارے میں انتہائی نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔
آج کا دور سوشل میڈیا کا دورہے، آصف علی زرداری، میاں محمد نواز شریف، عمران خان و دیگر سیاسی قائدین کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بے ہودہ گفتگو اور خطابت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ریاستی اداروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ عوام میں ان کی ساکھ خراب ہوچکی ہے جو شخصیات کے لیے نہ سہی مگر ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ عوام کے حقوق کا تحفظ اور انہیں ریلیف فراہم کرنا ہر حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ عافیہ کو واپس لا کر عوام کو تحفظ کا احساس اور ریلیف فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو یقینا عوام بھی اپنے حکمرانوں اور اداروں پر اعتماد اور انہیں عزت دینے کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ پاکستان کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جس پر عوام اعتماد کرتے ہوں۔ کارکردگی کی بنیاد پر اگر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سابقہ دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو وہ مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ مگر یہی جماعتیں ایک مرتبہ پھر بڑی بے شرمی سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کررہی ہیں۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے، جو لیڈر عافیہ جیسی ایک بے گناہ پاکستانی شہری کو امریکی قید ناحق سے رہائی نہ دلا سکے وہ ملک و قوم کی تقدیر کیا بدلے گا؟۔ ان کم عقلوں کو کوئی سمجھائے کہ معیشت سے پہلے ’’ قومی غیرت‘‘ کی بحالی ضروری ہے۔