۔10نومبر کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ 8 فروری کو صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے لیے کے پی کے اور پنجاب کی عبوری نگراں حکومت کو فوری برطرف کیا جائے اور عدلیہ کے مقرر کردہ آر اوز اور ڈی آر اوز تعینات کیے جائیں اور صوبوں میں تبادلہ کیا جائے تا کہ دھاندلی کا کوئی امکان ہی نہ ہو۔ ابھی اس مطالبے کو بمشکل 24 گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ کے پی کے کے نگراں ویراعلیٰ محمد اعظم خان حرکت قلب بند ہونے کے باعث اچانک انتقال کرگئے، وہ بیمار تو تھے مگر ایسا امکان دور پرے بھی نہ تھا کہ بخار اور ڈائریا کے ہاتھوں یوں انتقال کرکے پورے ملکی نظام کے ہاتھوں کے توتے اڑا دیں گے۔ کیونکہ ملک کے آئین کا کشکول اس حوالے سے خالی بتایا جاتا ہے کہ نگراں وزیراعلیٰ کے استعفے یا اچانک موت کی صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہے وہ تو ربّ کے حضور چلے گئے اور یوں پوری نگراں صوبائی حکومت کے پی کے دھڑام سے گر گئی اور اختیارات حضرت مولانا فضل الرحمن کے سمدھی اور گورنر کے پی کے حاجی غلام علی کے پاس چلے گئے۔ نگراں وزیراعلیٰ محمد اعظم خان مقدر کے سکندر تھے وہ بیوروکریسی میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور بیوروکریسی کی انتہائی پوسٹ چیف سیکرٹری تک جا پہنچتے ہیں اور تو اور جب نگراں وزیراعلیٰ کے پی کے کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار قرار پائے، اور یوں اقتدار کا ہما اُن کے سر پر بیٹھ گیا اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے سمدھی کے لیے گورنری لے کر شریک دعا فرما دیا۔ اعظم خان کی عمر وفات کے وقت 85 سال تھی۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف جو کے پی کے میں ماضی قریب میں حکمراں رہی اُن دونوں پارٹیوں کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے تحفظات تھے اور انہوں نے مقتدرہ اور متعلقہ ذمے داران کو خطوط بھی لکھے مگر یہ خطوط ردی کی ٹوکری کی نظر اس وجہ سے ہوگئے کہ وہ ان مقتدرہ اور متعلقہ کے نظر انتخاب تھے۔ انہیں کارکردگی سے کیا لینا دینا انہیں اپنے مطلب کا وزیراعلیٰ درکار تھا جو ان کے معیار کا ہو، اب نگراں وزیراعلیٰ کا انتقال ہوگیا تو آئین کا خلا بھی منظر عام پر آگیا اب قانونی ماہرین کی موشگافیاں ہیں کہ ایوان صوبائی اسمبلی ہی موجود نہیں تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کہاں سے لائیں، اب ایک ادارہ سینیٹ ہے جو مستقل ہے جہاں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں موجود ہیں سو وہ نگراں وزیراعلیٰ کے پی کے کا اتفاق رائے سے انتخاب کردیں مگر وہاں بھی اتفاق رائے، سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنے کا مرحلہ ہے۔ عدم اتفاق پر 6 رکنی کمیٹی اور پھر الیکشن کمیشن سینیٹ کے قائدین (حزب اختلاف و قائد ایوان) کے تجویز کردہ ناموں پر غور ہوتا۔ مگر انہونی ہوگئی۔ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے اور سابق لیڈر اپویشن جو سابقین تھے سابقین حقدار بنا دیے گئے کہ وہ نگراں وزیراعلیٰ کے پی کے کا انتخاب کرلیں یہ دور کی کوڑی کہاں سے آئی، آئین میں یا قانون میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جو سابق ہو وہ موجودہ کا انتخاب کرے۔ بہرحال انہوں نے جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین نگراں کابینہ میں وزیر قانون تھے جو ایبٹ آباد کے ہیں کا متفقہ فیصلہ ہوا۔ جو گورنر کو بھجوایا گیا اور پھر منظوری کے بعد خیر سے حلف بھی اٹھالیا گیا۔ جس میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، چیف سیکرٹری سمیت اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ یہ پاکستان کا بلکہ دنیا کا منفرد واقعہ پی ٹی آئی نے قبول نہیں کیا اور اُس کے نائب صدر ظاہر شاہ طور نے یہ کہہ کر محمود خان اور اکرم درانی کی طرف سے نامزد وزیراعلیٰ کسی صورت قبول نہیں ہم عدالت میں جائیں گے۔ گورنر کے پی کے نے کس قانون کے تحت محمود خان اور اکرم درانی کو نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کے لیے خط لکھا۔ محمود خان نے وزیراعلیٰ ہیں نہ اکرم درانی قائد اپوزیشن ہیں معاملہ آئینی طور پر حل کیا جائے گورنر اپنا فارمولا نہ بنائے، نگراں وزیراعلیٰ انوار الحق کاکڑ اس تقرر کو آئینی ضرورت پوری قرار دیا ہے۔