لوئس کو تو انصاف مل گیا، مگر عافیہ

789

امریکا میں 35 سال قبل ایک مقدمے میں ماخوذ شخص بالآخر رہائی پا گیا۔ امریکی ریاست مشی گن میں دنیا بھر میں انصاف کے علمبردار امریکا کی عدالت کو معلوم ہوا کہ اب سے 35 برس قبل جس آدمی کو ایک 14 سالہ لڑکی پر جنسی حملہ کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی وہ بے قصور ہے۔ لوئس رائٹ ایک خوش قسمت آدمی ہے۔ اس اعتبار سے خوش قسمت کہ دیر سے سہی 35 برس بعد اس کی بے گناہی تو ثابت ہوئی۔ دراصل ڈی این اے کی جدید ٹیکنالوجی نے اس کی بے گناہی کا ثبوت دیا۔ اسے 1988ء میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس روز جب یہ واقعہ ہوا تو لوئس اپنے پڑوس میں یہ دیکھنے گئے تھے کہ کیا ہوا ہے اسے پولیس آفیسر نے دیکھ لیا اور اندراج مقدمہ کے دوران اس پر شبہ ظاہر کیا گیا اور امریکا کی انصاف پسند عدالت نے پولیس کے دعوے پر یقین کرکے اسے سزا بھی سنادی۔ پاکستانی پولیس اور پاکستانی عدالت توجہ کرے کہ جو یہاں ہوتا ہے وہاں بھی ہوتا ہے۔ گویا جو دل کا حال ہے وہ ہی دلی کا حال ہے پولیس نے اعلان بھی کردیا تھا کہ لوئس نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔ پاکستانی پولیس بھی ایک ہی جرم کا اعتراف پندرہ پندرہ لوگوں سے کرالیتی ہے۔ امریکی پولیس نے بھی اس سے اعترافی بیان پر جبراً دستخط کرالیے۔ لوئس اس اعترافی بیان سے انکار بھی کرتا رہا لیکن سزا بہرحال ہوگئی۔ اسے 25 سے 50 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 65 سالہ لوئس رائٹ کو ساڑھے سترہ لاکھ ڈالر ہرجانہ ملنے کا امکان ہے۔ لوئس کو 35 سال بعد انصاف مل گیا۔ اسے انصاف میں تاخیر انصاف کی موت کہتے ہیں۔ کیا امریکا میں انصاف کی موت واقع ہوگئی ہے؟ یہ سوال ثنا خواں تقدیس مغرب سے ضرور کیا جانا چاہیے۔ ہمارے جیسے ملک میں تو عدالتی نظام عدل، پولیس، ذرائع ابلاغ سب ہی کسی قاعدے قانون کے مطابق نہیں لیکن امریکا تو سب کا مائی باپ ہے۔ ہر حکمران سویلین و فوجی وہیں کی مثالیں دیتا ہے۔ تو لیجیے مثال حاضر ہے۔

اس مثال کے بعد جو سوال اٹھتا ہے کہ امریکی شہری لوئس رائٹ کو انصاف مل گیا، کیا اس لیے ملا کہ وہ امریکی شہری تھا اور مسلمان نہیں تھا۔ کیا امریکا میں نسلی مذہبی امتیاز نہیں ہے۔ اور پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ 20 سال سے ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہی ہے۔ اس پر تو عدالت نے بھی دہشت گردی کا مقدمہ ثابت نہیں کیا بلکہ اس کا دہشت گردی سے تعلق بھی ظاہر نہیں کیا۔ اسے جن فوجیوں پر حملے کا مجرم قرار دیا گیا ان میں سے کسی کو گولی بھی نہیں لگی اور جس بندوق کا ذکر آلہ واردات کے طور پر کیا گیا اس سے گولی بھی فائر نہیں ہوئی۔ تو پھر امریکی انصاف کیا ڈاکٹر عافیہ کے لیے بھی 35 برس گزرنے کا منتظر ہے۔ بظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس نے امریکی نظام عدل اور پولیس کے نظام کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے۔ وہی نو آبادیاتی منظر پیش کررہا ہے جب گورا پولیس افسر کی کالے ہندوستانی کسی افریقی یا کسی عرب کے خلاف مقدمہ درج کرواتا تو وہی اس کی سزا کے لیے کافی ہوتا۔ پھر کسی کو تحقیق اور تفتیش کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اور ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے میں تو صرف امریکی نظام انصاف ہی بے نقاب نہیں ہوا بلکہ پاکستان کا پورا نظام ڈھے گیا ہے۔ ایک پاکستانی خاتون جرم بے گناہی کی سزا امریکا میں بھگت رہی ہے۔ اس کے خلاف لوئس رائٹ پر لگائے گئے الزامات سے زیادہ سنگین جرائم ہوچکے ان کا ثبوت بھی مل چکا اور ایک جوں تک کسی کے کان پر نہیں رینگی کسی کے لبوں پر جنبش نہیں آئی۔ طاقتور ادارے خاموش، اختیارات کا دعویٰ کرنے والی پارلیمان خاموش، فوجی حکمران خاموش، سویلین بالادستی کے دعویدار سویلین حکمران خاموش، قانون اور آئین کی تشریح کی دعویدار عدلیہ بے بس۔ صرف شماعتیں اور تاریخیں یہ سارے طاقتور ترین ادارے اور لوگ بے بس تو عام شہری سوائے ماتم کے اور کیا کرسکتے ہیں۔ ایسے میں کسی کی زبان سے احتجاج کا کوئی لفظ نکل جائے، آواز تیز ہوجائے، جذبات میں آکر کسی کو برا بھلا کہہ دیا جائے تو غداری کا سرٹیفکیٹ تیار، نام لکھنے کی دیر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اتنا کہہ دیں کہ ہم یہ کام نہیں کریں گے۔ بلکہ زبان پر تسلی، عافیہ میری بیٹی ہے، ہماری بہن ہے، قوم کی عزت ہے جیسے بیانات ہیں لیکن عمل وہی ہے جو فلسطین کے معاملے میں ہے۔ برما کے اراکان مسلمانوں کے معاملے میں ہے، کشمیریوں کے معاملے میں ہے، شاید اسی خوف سے بنگلا دیش میں بہت سے محصور پاکستانیوں نے بنگلادیشی شہریت قبول کرنے پر غور شروع کردیا ہے کہ پاکستان کے تو تمام ہی حکمران جی ہاں جی ہاں کہتے رہیں گے، ہم یہاں سڑتے رہیں گے، پاکستانی حکمران تجویز کریں کہ عافیہ کی واپسی کے لیے اب کون سی مصیبت کے منتظر ہیں۔ عافیہ کو امریکی شہریت ہی حاصل کرنے کا مشورہ دے دیں کیا معلوم امریکی نظام عدل کے بچے کھچے ضمیر سے کوئی اچھی خبر سننے کو ملے۔ لیکن کیا ہمارے حکمران ایسا کرنے کی ہمت کریں گے۔ یہ ناں بھی نہیں کہہ سکتے اور عافیہ کو لا بھی نہیں سکتے۔