آج فلسطین اْمت مسلمہ کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے، فلسطین کی موجودہ صورتحال اْمت مسلمہ کے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے، افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ آج پورaی اْمت مسلمہ کفر کے سائے میں لادنیت اور طاغوتی نظام کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے، اس کی اصل وجہ ان کے دنیاوی مفادات ہیں، جس کے باعث پوری امت مسلمہ کمزور ولاغر، انحطاط وپسپائی اور عاجزی وبے بسی کی علامت بن کر رہ گئی ہے، یاد رکھیں فلسطین کے مسئلے کا تعلق صرف فلسطینیوں اور عرب قوم سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق جہانِ اسلام سے ہے، ایک طرف اسرائیلی کی انتقامی کارروائی عروج پر ہے دوسری طرف جارحیت اور انسانیت سوز مظالم نے فلسطینی جیالوں کے پہاڑ جیسے حوصلوں کو بھی بلند تر کر رکھا ہے، باوجود اس کے فلسطین کی سر زمین زخموں سے چور چور ہے ہر طرف ظلم و ستم کی آوازیں ہیں، دْکھی مائوں کی چیخوں اور یتیم بچوں کی آہوں اور سسکیوں سے غزہ گونج رہا ہے ان کے معصوم بچوں کے جنازے کفنوں میں لپٹے دور تک پھیلے ہوئے ہیں، منہدم شدہ گھروں کے آگے کھْلے آسمانوں تلے میری مائیں بہنیں عزم و حوصلہ سے اسرائیلی درندگی کا مقابلہ کر رہی ہیں، کیا 14 سالہ معصوم بچی لیان الباز کی چیخیں کسی کو سنائی دیتی ہیں جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے مجھے مصنوعی ٹانگ نہیں میری ٹانگ لگائو، ایسی بے شمار پھول جیسے معصوم بچوں کی دل خراش صدائیں ہیں، جو ان بے ضمیر حکمرانوں کو سْنائی نہیں دی رہیں، جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، جگر پاش پاش ہو جاتا ہے، مگر دوسری طرف یہ بے ضمیر اْمت مسلمہ کے ڈرے سہمے اور قرار دادیں پاس کرتے اور مذمت کرتے حکمراں ہیں۔
ایک طرف موجِ خوں سے الجھنے والے باشندگان قدس کے گرم جوش ولولے ہیں، دوسری طرف پاک فوج اور آذربائیجان کی فوجی مشقیں ہیں ہماری پاک فوج کے ترجمان یہ فرما رہے ہیں کہ پاک فوج اور آذربائیجان کی فوجی مشقوں سے دونوں فوجوں کی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا کوئی ان سے پوچھے کی ان مشقوں اور اعلیٰ صلاحیتوں سے کیا حاصل ہوگا، جب بیت المقدس کی زمین سْرخ ہو اور 2 ہزار معصوم بچے ملبے تلے دبے ہوں، اور مسلم افواج قتال فی سبیل اللہ اور جہاد بھول کر فوجی مشقوں میں مصروف ہوں، تو مجھے سلطنت عثمانیہ کے اخری سلطان عبدالحمید کا وہ جملہ یاد آتا ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ جو فوج بیت المقدس کی حفاظت نہ کر سکے تو ایسی فوج کی اوقات بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں ہے، مگر اس کے برعکس اسرائیل کی حمایت کرنے والی طاقتیں ظلم و درندگی کی داستان رقم کرنے میں کھل کر اس کی معاونت کررہی ہیں۔
امریکا نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم سے کئی بار رابطہ کیا اور اسلحے سے بھرا جہاز بھی اسرائیل بھجوایا۔ امریکی صدر نے امریکی بحریہ کا سب سے جدید طیارہ بھی اسرائیل بھجوانے کا حکم دیا۔ مگر مسلم حکمران فلسطین کا نام لینے سے قبل بھی دس بار سوچ رہے ہیں، آج مجھے ہٹلر کی وہ بات یاد آرہی ہے جب اْس نے دس لاکھ یہودیوں کو گیس کے چیمبر میں ڈال کر ہلاک کیا تھا اور کچھ یہودیوں کو چھوڑ کر یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ان کو صرف اس لیے چھوڑ دیا تاکہ دْنیا یہ جان سکے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا، مگر آج کے اْمت مسلمہ کے حکمرانوں نے کچھ سبق حاصل نہیں کیا، جبکہ اللہ نے عرب ممالک کو بے پناہ دولت و خوشحالی سے نوازا ہے، مگر افسوس صد افسوس کہ آج فلسطین میں خون ِ مسلم کی ارزانی پر یہ مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں، یہ مضبوط قدم کیوں نہیں اْٹھاتے اسرائیلی حکومت، یورپی ممالک، امریکا اور اقوام متحدہ پر اپنا دبائو کیوں نہیں ڈال رہے، یہ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں اب تک 4500 ہزار صرف معصوم بچے اور لگ بھگ اتنے ہی مرد اور عورتیں جام شہادت پا چکے ہیں، آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں مجھے آنے والے دنوں میں اسرائیل کی ظلم و درندگی کی فکر نہیں، اگر فکر ہے تو مجھے مْسلم حکمرانوں کے مردہ ضمیر کی ہے جو مر چکا ہے، جس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے،آگر ضمیرمردہ ہو جائے تو یہ اپنا فطری عمل چھوڑ دے گا، اپنی افادیت کھو بیٹھے گا، اور پھر اس کے اندر حقائق کے اعتراف کی صلاحیت بھی ختم ہو جائے گی، یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ انسانیت کی موت بھی ہے، یاد رکھیں ایک انسان مرتا ہے تو ہزاروں انسان پیدا تو ہو جاتے ہیں، لیکن جب ضمیر مردہ ہو جائے تو اجتماعی اور قومی ضمیر کے آثار ناپید ہو جاتے ہیں اور حکمرانوں کی گردنیں کفر کے آگے جھک جاتی ہیں، پھر اس کے بعد کسی المیہ کی فکر نہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ نہ عقیدہ واحدہ پر جمع ہوتی ہے نہ رسول اللہ کے دین اسلام پر تو ایسے میں کفر غالب نہیں ہو گا تو اور کیا ہوگا۔
قرآن مجید میں واضح حکم ہے سورہ النسا آیت نمبر 75، جس کا ترجمہ ہے (تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان عورتوں اور بچوں کے لیے کیوں نہیں لڑتے، جنہیں کمزور پا کر دبا لیا گیا ہے، جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں اس بستی سے نکال لو جس کے باشندے ہم پر ظلم کر رہے ہیں) قرآن مجید کے اس واضح حکم کے بعد پوری اْمت مسلمہ کے حکمران سوچیں روز محشر ہم آقائے دو جہاں کے سامنے کس منہ سے حوض کوثر کے متمنی ہوں گے اور اپنے ربّ کو کیا منہ دکھائیں گے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔