فکرِ اقبال کا عملی اطلاق اہمیت و ضرورت

866

مفکرِ اْمت مسلمہ، مفسرِ اسلام، دانائے راز، علامہ اقبال ؒ کے افکار عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ اْن کے تخیل نے مسلمانوں کو روح کی بالیدگی عطاء کی۔ اْردو اور فارسی اَدب میں وہ شاید پہلے اہلِ قلم ہیں جنہیں فطرت نے تخلیقِ حسنِ تجلی کی دولت سے مالامال کیا۔ وہ لفظوں کے ایسے سپہ سالار تھے جو ایک مفکر کی طرح سوچتے اور ایک مجاہد کی طرح عمل کیا کرتے تھے۔ اْنہوں نے پْرتکلف اندازِ تحریر چھوڑ کر لفظوں کو زندگی کا پیرہن عطا کیا۔ اْن کے ہاں ایک کامیاب زندگی کی سرمستی و رعنائی نظر آتی ہے۔ اقبال نے اَدب برائے زندگی کا درس دیا۔ اقبال ہر دور کے مفکر ہیں۔ ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ اقبال ہمارے نہ صرف قومی شاعر ہیں بلکہ عالمِ انسانیت کو امن، بھائی چارے، صبر و استقلال، سخت کوشی، اپنی مٹی سے پیار، محبت و الفت کے آبگینے اور حسن سرمدی کے نگینے عطاء کیے۔ اْن کے افکار کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اْنہوں نے اسلامی تعلیمات کے گلستاں سے خیالات کی خوشبو حاصل کی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عالم بے عمل ایسے شجر کی مانند ہوتا ہے جس پر پھل نہیں لگتا۔ اقبال کے نہاں خانۂ دل میں عمل کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ آنے والے کل کو درخشاں دیکھنے کے متمنی رہے۔ فرماتے ہیں:

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

اقلیمِ فراست، ترجمانِ حقیقت، آفتابِ اَدب، شاعرِ مشرق، حکیم الامت، راہ وارِ قلم، خوگرِ دردو سوز ِ آرزومندی، میرِ کارواں، پیامِ زندگی، علامہ محمد اقبال کے سیکڑوں اشعار ہمارے قلوب واذہان کو عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ مثلاً: یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزنِ، محبوبِ فطرت ہے

منظر چمنستاں کے، زیبا ہوں کہ نازیبا
محرومِ عمل نرگس، مجبورِ تماشا ہے!

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا

دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے!
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب!

ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب!
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ملّت کا شباب!

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب!
پادشاہوں کی نہیں اَللہ کی ہے یہ زمیں

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

تقدیر ہے اک نام مکافاتِ عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغامِ خدایانِ ھمالہ

علامہ اقبال کو سمجھنے کے لیے تاریخِ اسلام اور ادیانِ عالم کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ کئی فنِ کمال رکھنے والے شعراء￿ و ادباء اپنی خود پسندی، تصنع اور زبان درازی کے بل بوتے پر صرف کیفیت ِ حسن و عشق بیان کرتے ہیں۔ عورت اْن کی شاعری کامرکزی نکتہ رہتا ہے۔ آرائشِ خم و کاکل کے تذکرے سے وہ سستی شہرت حاصل کرلیتے ہیں۔ اقبال آسمانِ حکمت و دانش پر مثلِ آفتاب روشنی بانٹ رہے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم نے ابھی تک افکار ِ اقبال سے استفادہ نہیں کیا۔ اقبال نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک چارٹر عطاء کیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات منصۂ شہود پر آتی ہے کہ اقبال نے زندگی کی گہرائی اور گیرائی کا عمیق مطالعہ کیا۔ خودی کے بعد اْن کا نظریۂ فن زندگی کو پرکار کے دائرے میں محصور کرتا ہے۔ علوم و فنون پر دسترس کی وجہ سے اْنہوں نے اپنے افکار میں وہ نظریات اور نکات پیش کیے ہیں جن پر عمل درآمد کر کے ہم ایک فلاحی اور مستحکم معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس ماحول میں شعور کے دروازے پر دستک دی وہ ناگفتہ بہ تھا مسلمان پسماندگی کا شکار تھے اور اقبال اِن حالات میں حسنِ جہاں تاب کا ظہور دیکھنے کے متمنی تھے۔

علامہ اقبال نے قیامِ یورپ کے دوران محسوس کیا کہ یورپی قومیں علم و فن کی وجہ سے تجارتی منڈیوں پر قابض ہو رہی ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، ادب، فلسفہ، ریاضی اور فنونِ لطیفہ میں یورپی قوتیں سبک رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ مسلمان اِن علوم میں بہت پیچھے ہیں۔ انہیں اپنی پہچان بنانے کے لیے الگ راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مغرب و مشرق کے اخلاقی اور معاشی حالات کا تقابل بھی کیا۔ پہلی جنگ عظیم اور تحریک خلافت نے اقبال کے شعور پر دستک دی۔ اْس وقت سیاسی اور عسکری کشمکش نے ثابت کر دیا کہ دارالحرب کا انداز کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسلامی نظامِ خلافت کے لیے اقبال ؒ نے اسلامی جمہوریت اصطلاح استعمال کی ہے۔ خلافت کے حوالے سے اقبال ؒکہتے ہیں:

چاک کر دی تْرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
……

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

……
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری

علامہ اقبال کا سیاسی ادراک آج بھی ہمارے لیے قندیل ِ ہدایت ہے۔ ہم آستانۂ اقبال سے اپنے سیاسی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہماری فطرتِ انسانی سنور سکتی ہے۔ عندلیبانِ گلشنِ پاکستان عصرِ حاضر میں گلستانِ فکرِ اقبال سے ایسی خوشبو حاصل کر سکتا ہے جس سے بادِ سموم کی وجہ سے مرجھائے ہوئے پھول ازِ سرِ نو کھل سکتے ہیں۔ یورپ نے جدید فلاحی، اصلاحی اور مستحکم ریاست کے لیے نیشنل ازم، سیکولر ازم، کیپٹل ازم، سوشل ازم، لبرل ازم، اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا انتخاب کیا۔ اقبال کا سودائے تخیل اِن سب ازموں کا مخالفت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج جمہوریت اقبال کے خیالات سے متصادم ہے۔ اقبال سرمایہ دارانہ جمہوریت پسند نہیں کرتے۔ اقبال نے مربوط اسلامی ریاست میں نیشنل ازم کی جگہ، اسلامی نیشنل ازم کا انتخاب کیا ہے۔ وہ وطنی قومیت کی جگہ، اسلامی قومیت کا تصور پیش کرتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو تصورِ پاکستان کے پس منظر میں یہی جمہوریت کار فرما رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں فیکٹریوں کو فروغ ملتا ہے، لوگوں کی بہت بڑی تعداد مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ فلاحی ریاست کے تصور میں اقبال مزدور کو محنت کی دعوت دیتے ہیں لیکن مساوات کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہے۔ اقبال اِسی اسلامی نظامِ معیشت کو اختیار کرنے کے متمنی ہیں۔ اگر سرمایہ دارانہ جمہوریت کو فروغ دیا جائے تو انسانی حقوق ملک کی سرحدیں پار کرجاتے ہیں۔

فعال اور مستحکم نظام معیشت کے لیے علامہ اقبال کی کتاب ’’علم الا قتصاد‘‘ اور ’’خطبۂ الٰہ آباد‘‘ سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار مفر ہے کہ فلاحی ریاست کا فروغ معاشی ترقی کا رہینِ منت ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم عام نہ ہو تو ملک شاہراۂ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پاکستان میں جس قسم کا نظام تعلیم اور نظام امتحانات رائج ہے اْس سے ڈگریاں عام اور علم کم ہو رہا ہے۔ چور بازاری، اقرابا پروری، کرپشن، اخلاقی بے راہ روی، فحاشی، خود فراموشی نے ہمیں قعرِ مذلت میں ڈال دیا ہے۔ حق مانگ رہے ہیں اور فرض ادا نہیں کرتے۔ اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو ہماری حالتِ زار پر آشک بار ضرور ہوتے۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ میں اقبال نے روحانی اور اخلاقی قوت کے بعد پیداوار کو ترقی کا زینہ قرار دیا ہے۔ پیداوار ہی ملک کی تعمیری رفتار کا پہیہ ہے۔ ہمیں پاکستان کی بقاء سلامتی اور امن وآشتی کے لیے پائوں گرم، ہاتھ متحرک اور دماغ ٹھنڈا رکھنا ہوگا۔

اقبالؒ نے مستحکم ریاست کے لیے آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے اہم مسئلے پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں بہبودِ آبادی اور نسلِ نو کی بہترین تربیت کا تصور اقبال ہی نے پیش کیا جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ محنت، زمین، آبادی، منصوبہ بندی، افراط زر، بچت اور ٹیکس کا نفاذ اس کی بروقت ادائیگی سے فلاحی ریاست فعال ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ بچے جنم لیتے ہیں۔ اْن کے مسائل حل کرنے کے لیے تقریباً لاہور شہر کے اخراجات ریاست پر بوجھ پڑتے ہیں۔ آج کے بچے مستقبل کے لیے نرسری کی مانند ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمیں فرموداتِ اقبال سے روشنی حاصل کرنا ہو گی۔ مضافات اور اَن پڑھ طبقہ میں شعور بیدار کرنا ہو گا۔ کسی بھی ریاست میں دستکار اور ہنر مند کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ریاست کی حفاظت اور پرچم کی سربلندی میں ہر شخص کو بحیثیت مزدور کام کرنا ہوگا۔ ملوں، فیکٹریوں اور دیگر صنعتی اداروں میں کام کرنے والے مزدور اقبال کے نزدیک بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اْن کے خون پسینے ہی سے ریاست میں خوشحالی نظر آتی ہے۔ اْن کا خیال ہے کہ مزدور فلاحی ریاست کے استحکام کی پیشانی کا جھومر ہے۔

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات!
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
……
حکمِ حق ہے لَیْسَ لِلْاِنسَانِ اِلّا مَاسَعٰے
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

اقبال کے افکار ہر دور میں تروتازہ اور رہنمائی کا باعث ہیں۔ فلاحی ریاست کے قیام کا مرکزی پہلو مزدور کی فلاح و بہبود ہے۔ اْن کے مذکورہ اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیںکہ ریاست میں محنت کرنے والوں کو اْن کا اجر ضرور ملنا چاہیے۔ محنت کش ہی ریاستی ترقی کے ضامن ہیں۔ فرض کی ادائیگی اور قانون کی پاسداری ریاستی استحکام کا طرۂ امتیاز ہیں۔ اظہارِ رائے کا حق ہر شہری کو ملنا چاہیے لیکن وہ ریاست کے قوانین سے متصادم نہ ہو۔ اقبال کہتے ہیں:

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابگل بھی ہے
انہیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرلے!

علامہ اقبال 27 نومبر 1933ء کی معروف دانش ور مسولینی سے ملاقات ہوئی۔ دورانِ گفت گو ایک فعال ریاست کا تذکرہ ہوا تو مسولینی نے اقبال کی ایک بات سن کر خوشی کا اظہار کیا: ’’ہر شہر کی آبادی متعین کی جائے۔ شہری آبادی میں غیر ضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔ ’’شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر کوئی حل نہیں ہے‘‘۔

تاجدارِ کائنات محمد مصطفیؐ نے ریاستِ مدینہ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔ ’’مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو۔ گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ کرو۔ ہر گلی اتنی کشادہ ہو کہ دو لدے ہوئے اْونٹ آسانی سے گزرسکیں۔ مدینہ کے بالکل درمیان میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے۔ اسے ’’سوقِ مدینہ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ تمہاری مارکیٹ ہے۔ اس میں ٹیکس نہ لگاؤ۔ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے‘‘۔ علامہ اقبال کے افکار کاگہرا مطالعہ کیا جائے تو ہمارے لاتعداد مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اِن اصولوں پر عمل درآمد کون کروائے؟ ہمارے پاس ربِ کائنات کا ایک اعظم الشان چارٹر ’’قرآن مجید‘‘ موجود ہے۔ خاتم النبیین، رحمت للعالمین، محمد مصطفیؐ نے اس چارٹر کی تشریح کر کے عالمِ انسانیت کی فلاح و بہبود کا اہتمام کیا ہے۔ افکارِ اقبال کا عملی اطلاق کیسے اور کیوں کر ممکن ہے۔ اس کے لیے اقبال کے پیغامِ عمل پر توجہ کرنا ضروری ہوگی۔