آثار و قرائین بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی کِٹ بک پر چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ ایشو کر دی گئی ہے۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں، انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو کسی بھی صورت وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔ میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر انہیں کام کرنے نہیں دیا گیا، کبھی غلام اسحاق خان آڑے آتے رہے، اور کبھی جنرل مشرف نے ان کے ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ احتجاج کیا تو ان کی حکومت پر شب خون مارا گیا، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موصوف تین بار وزیر اعظم بنے اور ہر بار ان کی حکومت تیرہ تین کر دی گئی باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت ان کی تین پانچ کے باعث نو دو گیارہ کے عمل سے دو چار ہوئی، کیونکہ وعدہ نبھانا موصوف کی فطرت میں شامل ہی نہیں وہ مقتدر قوتوں سے ڈیل کے تحت وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوتے رہے، کچھ عرصہ تک تو ڈیل پر عمل کرتے رہے مگر ڈھیل کے طلب گار ہوئے تو ڈیل بھی ختم کر دی گئی۔
موصوف چوتھی بار وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کتنا عرصہ وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز رہیں گے کیونکہ وعدے پر عمل پیرا ہونا ان کی فطرت ہی نہیں وہ حسب عادت مقتدر قوتوں سے پنجا آزمائی شروع کر دیں گے، حالانکہ تجربات کی روشنی میں پنجہ آزمائی سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ گریز پائی ملک و قوم کی ضرورت ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ ملکی ضرورت پر اپنی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں، اور ترجیحات کے اس کھیل میں کلین بولڈ ہو جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا تو وہ ہر ایک سے یہی سوال کیا کرتے تھے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اس بے دخلی نے موصوف کی صحت پر اتنا برا اثر ڈالا کہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ اگر میاں نواز شریف اس بیماری میں چل بسے تو ان کی حکومت نہیں چل سکے گی، اور تحریک انصاف ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو جائے گی جس کا علاج ممکن ہی نہیں سو میاں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی بعد میں عمران خان کہتے رہے کہ میاں نوازشریف بیمار نہیں تھے بلکہ بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے بھاگے ہیں اور پھر تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما انہیں بھگوڑا کہنے لگے، مگر وہ اس حقیقت کا احساس نہ کر سکتے کہ یہ بیانات ان کی نا اہلی کا ثبوت ہیں۔
وزیر صحت اور ان کے اپنے ڈاکٹروں نے میاں نواز شریف کی بیماری کی تصدیق کی تھی اور یہ بھی باور کرایا تھا کہ میاں نواز شریف کو کسی بھی وقت اللہ کا بلاوا آسکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے بیرون ملک جاکر اپنی بیماری پر کم اور سیاسی معاملات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی وہ کہا کرتے تھے جو لوگ انہیں نکالنے کی سازش میں شامل ہیں انہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے، میاں نواز شریف کی خوش نصیبی ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ بستہ بند ثابت ہوئیں اور مقتدر قوتوں کو احساس ہو گیا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اور پھر میاں نواز شریف کو واپس لانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے، اس معاملے میں تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو گئے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی اور خان صاحب کو چلتا کر دیا گیا، مگر میاں نواز شریف کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا راگ الاپتے رہے انہیں سمجھایا گیا کہ انہیں وزارت عظمیٰ اسی صورت مل سکتی ہے، جب وہ وطن آ کر ملک وقوم کی خدمت کریں انتقام کی رٹ لگانا چھوڑ دیں، اور قوم کو یہ باور کرائیں کہ انہوں نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے۔ کچھ عرصہ تو میاں نواز شریف اپنے بیانیے پر ڈٹے رہے پھر انہوں نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑنا ہی مناسب سمجھا، اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ میاں نواز شریف نے مناسب سمجھایا موقع سمجھا۔ یہاں یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ حلالہ کے عمل سے گزرنے والی اکثر خواتین اپنے پہلے شوہر کی زوجیت میں جانا گوارا نہیں کرتیں۔