بھارت: جھوٹی اطلاعات کا چمپئن

1082

بھارت اپنی آبادی، معیشت و تجارت کے حجم، آئی ٹی میں پیش رفت اور میڈیا میں بے پناہ مہارت کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنے بد نما، سیاہ اور مکروہ چہرے کو چھپاتا رہا ہے اور اس کی معاشی ترقی کے غازے نے اس کے چیچک زدہ چہرے پر میک اپ کی تہیں اتنی مہارت سے جمائی ہیں کہ اصل چہرہ نگاہوں کے سامنے نہیں آتا۔ آبادی کے اعتبار سے وہ اب دنیا کا سب سے بڑا، معیشت کے اعتبار سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس کا میڈیا انتہائی طاقتور اور مؤثر ہے۔ اس طاقتور میڈیا نے نہ صرف پاکستان کے سطحی سوچ رکھنے والے عناصر بلکہ امریکا اور یورپ کے نام نہاد پڑھے لکھے معاشرے کی آنکھیں بھی خیرہ کر رکھی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص روئے زمین پر بدترین جگہ ہے بھارت جھوٹی معلومات و اطلاعات، جھوٹے پروپیگنڈے کے لحاظ سے عالمی چمپئن کا درجہ رکھتا ہے۔ یورپی یونین کی ڈس انفو لیب (EU Dis info lab) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو چشم کشا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے خلاف 2005ء سے 2020ء تک بین الاقوامی سطح پر منفی اور جھوٹی پروپیگنڈا مہم چلائے رکھی۔ اس نے 10 سے زائد عالمی این جی اوز جنہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایجنسی میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ ان این جی اوز کا کنٹرول بھارت نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جھوٹا اور زہر آلود پروپیگنڈا کیا۔ انہی مذموم مقاصد کے لیے اس نے 550 سے زائد ویب سائٹس رجسٹرڈ کروائیں اور ان ویب سائٹس پر جھوٹی اور من گھڑت معلومات، اطلاعات، اور خبروں کو لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلایا اور اس قدر چالاکی، ہوشیاری اور مکاری سے یہ کام کیا کہ لوگ اسے سچ سمجھ کر آگے پھیلاتے رہے۔ گویا بھارت گوئبل کے قول پر پوری طرح عمل کرتا رہا کہ ’’جھوٹ بولو، اتنا بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘۔ ان ویب سائٹس، این جی اوز کے ذریعے پاکستان آرمی کو خصوصی ہدف بنایا گیا۔ دنیا کی نظریں بھارت میں بہت وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقبوضہ کشمیر میں جاری کشمیریوں کی نسل کشی جیسے اندوہناک اور وحشت ناک سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
اس مہم میں بھرپور کامیابی کے حصول کے لیے بھارت نے اربوں ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی اور دنیا بھر میں کروڑوں ذہنوں کو زہر آلود کیا۔ 750 سے زائد جعلی میڈیا کو دنیا کے ایک 116 ممالک میں نشریات اور پروپیگنڈے کے لیے مخصوص کیا گیا۔ اس معاملے میں بھارت اس حد تک گر گیا کہ اس کے متعدد ایسے افراد جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال ہو گئے تھے انہیں زندہ ظاہر کر کے ان کے نام سے لاکھوں پوسٹس پھیلائیں اس طرح جھوٹ، مکر و فریب کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ بھارت نے متعدد صحافیوں کی آئی ڈیز چرائی اور انہیں استعمال کیا اس طرح جعلی صحافیوں کو بھی اس مکروہ کام کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس مکروہ عمل میں انہوں نے یورپی یونین کے کچھ اراکین پارلیمنٹ کے ضمیر کو بھی خرید کر اس میں شامل کیا۔
پروفیسر لوئس بی شون جنہیں اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کا بابا آدم تصور کیا جاتا ہے ان کا نام ان مذموم مقاصد کے لیے جعلی طور پر استعمال کیا گیا۔ اسی طرح متعدد جعلی تھنک ٹینک بنائے گئے اور انہیں بھی پاکستان کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ یہ نیٹ ورک حیرت انگیز طور پر یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر بلجیم کے شہر برسلز میں عین اس کی ناک تلے سرگرم عمل رہا اسی طرح سوئٹزر لینڈ کے شہر جینیوا میں بھی اس کا نیٹ ورک انتہائی فعال رہا۔
یہ رپورٹ یورپی یونین اور امریکی پالیسی سازوں کے لیے چشم کشا ہے لیکن افسوس کہ مغرب کا دوہرا معیار ان کی اخلاقی ساکھ کو دیمک کی طرح کھا چکا ہے اور اسرائیل کی طرح یورپ اور امریکا بھارت کو بھی اپنے چہیتے کی حیثیت سے سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے ہیں اور بھارت کی چیرہ دستیوں، مظالم دہشت گردی پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اب تو بھارت کی سینہ زوری اور دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے کینیڈا اور برطانیہ میں سکھ رہنماؤں جن میں ہردیپ سنگھ نجار شامل ہے انہیں قتل کر کے عالمی قوانین کا منہ چڑایا ہے گویا یورپی یونین اور امریکا کو اشارہ دیا ہے کہ میرا کچھ بگاڑنا ہے تو بگاڑ لو مگر یاد رکھنا میں تمہارے مقاصد کا محافظ اور تمہارے ایجنڈے کا سب سے بڑا عالمی مہرہ ہوں۔
انسانی تاریخ میں اس قدر جھوٹا پروپیگنڈا اس قدر وسیع پیمانے پر اس سے پہلے نہیں کیا گیا۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دی اکنامسٹ جیسے عالمی جریدے اور وائس آف امریکا تک کو اس جھوٹے پروپیگنڈے میں استعمال کیا گیا۔ جعلی ناموں کے ذریعے یورپی پارلیمنٹ کو خطوط لکھے گئے۔ جعلی لیٹر ہیڈ، جعلی فون نمبر استعمال کیے گئے۔ اس پروپیگنڈا ساز عالمی فیکٹری کے ذریعے کتابیں شائع کی گئیں۔ انہوں نے برطانیہ کے سابق وزیر، بی بی سی کے ڈائریکٹر کی تصویر اور فیس بک کو بھی استعمال کیا اور ایسے لوگوں کے نام استعمال کیے گئے جن کے انتقال کو پانچ سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ پاکستان میں بیٹھے میڈیا کے کچھ نام نہاد دانشور اور سوشل میڈیا کے توتوں نے اس زہر الود معلومات کی بھرپور اشاعت و تشہیر میں جی بھر کر حصہ لیا اس طرح مذموم، زہر آلود اور متعفن مہم کا حصہ بن گئے۔
میں الحمدللہ اپنی ذاتی حیثیت میں پاکستان، افواج پاکستان کے خلاف اس زہر آلود، تعفن زدہ اور جھوٹے پروپیگنڈے کا ہر سطح پر مقابلہ کر کے غلط معلومات، اطلاعات کی تردید کر رہا ہوں۔ میں سفارتی سطح پر پاکستان کے مثبت امیج اور روشن ستارے پروجیکٹ کے ذریعے پاکستان کے نوجوانوں کے غیر معمولی کارناموں کو اجاگر کر رہا ہوں۔ مجھے پاکستان کے محب وطن افراد کی مدد درکار ہے پاکستان کے شہداء، پاکستان کے ہیروز کی کہانیاں گھر گھر عام کرنا ہے، قوم کو سیاسی، مسلکی، فرقہ وارانہ سوچ اور دائروں سے نکال کر یکجان اور متحد کرنا ہے نوجوانوں کی بھرپور رہنمائی فراہم کر کے انہیں ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے پر آمادہ کرنا ہے دنیا کی بہترین جامعات میں داخلے کے لیے انہیں رہنمائی اور معاونت فراہم کرنا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنا ہے۔ مجھے صلہ، ستائش یا کوئی معاوضہ درکار نہیں بس پاکستان کی خدمت میرا مشن میرا جذبہ ہے۔ آئیے ہمارا ساتھ دیجیے۔