عدالت عظمیٰ کے حکم پر الیکشن کمیشن کے حکام کی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کے بعد 8فروری 2024 بروز جمعرات کو عام انتخابات کرائے جانے کے فیصلے اور اتفاق نے پاکستان کی قومی سیاست میں ایک ہلچل سی مچا دی ہے اور چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے قوم کو بے یقینی کی صورتحال سے نکالنے کے لیے احسن کردار ادا کیا ہے۔ ادھر دوسری جانب 21اکتوبر کو چار سالہ خودساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان کے تین بار وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف ہونے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف بھی پاکستان پہنچ چکے ہیں اور مینار پاکستان پر ان کی آمد پر ہونے والے جلسہ ٔ عام نے پاکستان کی سیاست کے بدلتے رخ اور بدلتی ہوا کا پتا بتا دیا ہے۔ میاں نواز شریف کی پاکستان آمد بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچانے کے مترادف ہے۔ نواز شریف جنہیں 2017 میں پاناما لیگ کیس میں نااہل قرار دیا گیا جس پر وہ بطور وزیراعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے اور تیسری مرتبہ بھی وہ بطور وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکے اور 2018 میں ایون فیلڈکرپشن کیس میں انہیں دس برس اور سات برس کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں قید کے دوران علالت کے باعث انہیں سروسز اسپتال لاہور میں داخل کیا گیا جہاں ان کی حالت بگڑ گئی اور ان کا مدافعاتی نظام درست کام نہیں کررہا تھا اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے ان کو علاج کے لیے فوری طور پر لندن بھیجا جائے۔ جس پر ڈاکٹروں کے مشوروں اور عدلیہ کے حکم پر تحریک انصاف کی حکومت نے چار ہفتوں کے لیے علاج کے لیے ائرایمبولنس کے ذریعے لندن علاج کے لیے بھیجا۔ چار ہفتوں کے بعد جب نواز شریف پاکستان واپس نہیں آئے تو ان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے احکامات عدالت کے ذریعے جاری کیے گئے تھے۔
21اکتوبر کو نواز شریف کی پاکستان آمد ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ویسے نواز شریف کے ہمیشہ ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات رہے ہیں اور اب 2023 کے نواز شریف اور 2019 کے نواز شریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نواز شریف جو ملک کے ایک بڑے سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مزاج بھی بادشاہوں جیسا ہے اپنی بات پر اڑ جانا اور اپنے آگے کسی کی نہ ماننا ان کی خاصیت ہے اور جس کا خمیازہ انہوں نے اکثر وبیش تر خوب بھگتا بھی ہے۔ 2017 میں جب نواز شریف اقتدار میں تھے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے تعلقات خراب ہونے پر ان سے چھٹکارے کا فیصلہ کیا تو عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف پر ہاتھ رکھا گیا اور 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جس طرح سے انہیں کامیابی دلائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بہی خواہوں کے ساتھ توتے کی طرح آنکھیں پھیرنا شروع کیں جس کی تو کوئی نظیر ہی نہیں ملتی۔ عمران خان کو جو لوگ اقتدار میں لائے بعد میں عمران خان ان ہی پر غرانے لگے تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی وہی کیا جو تین دفعہ نواز شریف نے بھگتا ہے۔
تحریک انصاف کی عوامی اور سیاسی طاقت کو توڑنے کے لیے استحکام پاکستان پارٹی کو جنم دیا گیا لیکن 70فی صد سے زائد قیادت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے باوجود استحکام حاصل نہیں کر پائی ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے پرانے دوست میاں نواز شریف پر ایک بار پھر ہاتھ رکھا ہے۔ نواز شریف کی 21اکتوبر کو اسلام آباد اور پھر لاہور آمد اور مینار پاکستان پر جلسے کا انعقاد اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نواز شریف پر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ رکھ دیا ہے۔ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر سب سے زیادہ پریشان پیپلز پارٹی ہوئی ہے اور اس کا ردعمل بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نواز شریف کو گرین سگنل ملنے پر سابق صدر آصف زرداری کا اپنے بیٹے بلاول زرداری کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی نے بھی ترپ کا پتا کھیلتے ہوئے پی ٹی آئی سے پینگیں بڑھانی شروع کردی ہیں اور سمجھتی ہے کہ اس طرح سے وہ پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے وہ پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ کے بڑھتے قدموں کو روک سکتی ہے اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے بھی تحریک انصاف کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہے اور وہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک انصاف اور پی ٹی آئی کے تعلقات کو بحال کر انتخابی اتحاد کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف بھی ابھی گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے اس کی آدھی سے زیادہ قیادت استحکام پاکستان پارٹی کو پیاری ہوچکی ہے۔ فواد چودھری اور شیخ رشید کا حشر دیکھنے کے بعد باقی قیادت بھی پریشان ہے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو گجو میڈیکل کالج صوابی کے لیے طبی آلات کی خریداری میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے ان پر صوابی تھانے میں اس الزام پر ایف آئی آر بھی درج تھی واضح رہے کہ اسد قیصر اس وفد میں شامل تھے جس نے گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آتا جائے گا تحریک انصاف پر دبائو بڑھتا جائے گا۔ تحریک انصاف مائنس عمران خان کے بغیر الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے سے اجتناب برت رہی ہے اور حالات اسی طرح برقرار رہے تو تحریک انصاف کی قیادت انتخاب کے بائیکاٹ کی جانب بھی جاسکتی ہے۔
تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی اکثریت جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کی خواہش مند ہے کیونکہ موجودہ حالات میں تنہا الیکشن لڑنا اس کے بس سے باہر ہے۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سے اتحاد ان کے بیانیہ کے منافی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں کے پی کے، پنجاب اور کراچی واندرون سندھ سے بہتر نتائج کی توقع کی جارہی ہے اور سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد ملک بھر سے بھاری اکثریت سے نشستیں حاصل کرسکتا ہے اور ماضی میں بھی ان دونوں نے کے پی کے میں بڑے احسن طریقے سے صوبائی حکومت چلائی ہے اور اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تحریک انصاف موجودہ گمبھیر حالات میں پیپلز پارٹی، جے یوآئی یا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے یا پھر سولو فلائٹ کرتے ہوئے تنہا انتخابی دنگل میں اترتی ہے یا پھر اسد قیصر کی طرح دیگر دوسرے رہنمائوں کی گرفتاریوں پر انتخابی بائیکاٹ کا اعلان کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ہوا کا رخ تو یہ بتا رہا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پارٹی کو آسانی کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لینے نہیں دے گی اور اسد قیصر کی طرح پرانے کیس کھولے جائیں گے جوں جوں وقت گزرتا جائے گا سیاست کا رنگ اور روپ تبدیل ہوتا جائے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نظریہ کی کوئی سیاست نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد اور پی ڈی اے اتحاد کی حکومت اس کی واضح دلیل ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کے نام پر اور اقتدار کے حصول کے لیے توگدھے کو بھی باپ بنا لیا جاتا ہے۔