ایک نیا ستم

853

شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی قوم ہو جس کی نظر میں جھوٹ قابل مذمت اور قابل نفرت نہ ہو، مگر پاکستان میں جھوٹ کو سیاست سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وطن عزیز کے قانون میں جھوٹ قابل تعزیر جرم ہے، علاوہ ازیں مذہبی طور پر بھی جھوٹ قابل مذمت ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ کو مشورہ دیا گیا تھا، جھوٹے وعدے کرنے، جھوٹے بیانات دینے اور انتخابات کے دوران بیان دینے والے منشور پر عمل نہ کرنے والے سیاستدانوں کو آئین کی دفعہ 62-63 کے تحت سزا دینا چاہیے، جس کے جواب میں کہا گیا کہ اگر 62-63 پر عمل درآمد کیا گیا تو مولانا سراج الحق کے علاوہ سبھی سیاستدان نا اہل قرار پائیں گے، سوال یہ ہے کہ عدلیہ آئین کے مطابق سیاستدانوں پر باسٹھ تریسٹھ کا اطلاق کیوں نہیں کرتی۔ یادش بخیر ایک بار کسی جسٹس نے کہا تھا کہ جس دروازے سے بھیک ملتی ہے اس پر پلکوں سے دستک دی جاتی ہے، ورنہ… ہاتھوں سے لہو رسنے لگتا ہے۔

قیام پاکستان سے اب تک وطن عزیز مختلف مسائل میں مبتلا رہا ہے اور اس کی وجہ سیاستدانوں اور نام نہاد مورخین کا جھوٹ ہے، جو مورخ جھوٹ بولتا ہے، اور تاریخی حوالوں کو غلط بیانی کے غلاف میں چھپاتا ہے اس کی رادھا کو 9من تیل ملتا رہتا ہے، اور جو قلم کار سچ لکھتا ہے، سچ بولتا ہے اس کی رادھا سے پازیب بھی چھین لی جاتی ہے، اس تناظر میں یہ کہنا کہ ملک میں سیاسی فقدان اور معاشی بحران مسند انصاف پر براجمان شخصیات کی کم نظری کے باعث آتا ہے اگر مسند انصاف پر تشریف فرما شخص خدا کی نیابت کا فریضہ ادا کرے تو ملکی معیشت کبھی کمزور نہیں ہو سکتی۔

بہاول پور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی کا کہنا ہے کہ انہیں پورا یقین تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس پاکستان بن جانے کے بعد پیشی پیشی کا مکروہ اور ایذا رسا کھیل ختم ہو جائے گا، مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا کیونکہ اب بھی جسٹس صاحبان کئی کئی مہینوں کی پیشیاں دے رہے ہیں، اس ضمن میں قابل غور بات یہ ہے کہ وکیل ایک ہفتہ کی پیشی طلب کرتا ہے تو جج صاحبان دو ماہ کی پیشی عنایت کر دیتے ہیں، اگر اسی طرح پیشیاں دی جاتی رہیں تو عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان فائز عیسیٰ بھی گھر چلے جائیں گے کیونکہ 13ماہ بعد ان کی مدتِ ملازمت بھی ختم ہو جائے گی، پھر دوبارہ پیشی در پیشی اور لیفٹ اوور کا مکروہ کھیل شروع ہو جائے گا، ہر پیشی پر پیشی مانگنے، چھٹی کی درخواست دینے، آئوٹ آف اسٹیشن ہونے اور بیماری کا ڈھونگ رچانے والے وکلا اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پیشی پر پیشی طلب کرنے پر وکیل کو چند ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا جو حکم ہے۔ یہ عدالتی ستم کی علامت ہے، کیونکہ جرمانہ کی رقم تک کلائنٹ ادا کرتا ہے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جرمانہ وکیل کو ادا کرنے کا پابند کیا جائے، کیونکہ پیشی پیشی کا کھیل تو وکلا کھیلتے ہیں کلائنٹ نہیں۔ اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان کو فریش ریگولر کیس کا فیصلہ تین سال میں کرنے کا پابند کیا جائے، کیونکہ تین سال بعد فریش ریگولر مقدمات ، ریگولر مقدمات کی صف میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں، اور پھر کلائنٹ تاحیات پیشیاں بھگتتا رہتا ہے اور پھر جسٹس صاحبان کو لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسانے کا بہانا مل جاتا ہے اگر فریش مقدمات کو ریگولر ہونے سے پہلے ہی نمٹا دیا جائے تو عدلیہ مقدمات کے انبار سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

یادش بخیر کسی جسٹس نے کہا تھا کہ وکلا جج اور جسٹس صاحبان کو شاعری لازمی پڑھنا چاہیے ہمیں یقین ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو جج اور جسٹس صاحبان کو یہ بھی علم ہو جائے گا کہ

جسم کی رسمیات اور، دل کے معاملات اور
بیعتِ دست ہاں ضرور، مگر بیعتِ جاں نہیں نہیں

مگر اس ہدایت کا بھی وہی انجام ہوا جو انجام اردو کو قومی زبان بنانے کے حکم کا ہوا تھا۔