نیکی و بدی کا جو بھی فلسفہ ہو لیکن عالمگیر حقیقت یہی ہے کہ بدی کی تمام تر شر انگیزیوں کے باوجود غلبہ ہمیشہ نیکی ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ بدی یا شیطانیت کمزور ہوتی ہے لیکن پھر بھی نیکی بدی پر غالب آکر رہتی ہے، یہی وہ تصور ہے یا عالمگیر سچائی ہے جس کو دنیا میں بنائے یا دکھائے جانے والے بچوں اور بڑوں کے ڈراموں یا کھیل تماشوں میں دن رات تسلیم جاتا ہے۔ میں نے آج تک کوئی فلم یا ڈراما ایسا نہیں دیکھا جس میں آخری فتح کسی ظالم، غاصب، مغرور یا شیطانی ذہن رکھنے والے کی ہوئی ہو۔ میرا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ڈراموں، کہانیوں یا دکھائی جانے والی جنگوں کا اختتام ظالم طاقتوروں کے غلبے کا دکھایا جانے لگے تو شاید ہی اسے کسی قوم کی جانب سے سراہا جائے یا اس کے ختم ہونے کے بعد لوگ اس کے اختتام کی تعریف کرتے نظر آئیں۔ یہی اندازِ فکر اس بات کی علامت ہے کہ وہ نیکی ہی جو بہر حال و بہر صورت غالب آکر رہی گی جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ ’’حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹ جانے کے لیے ہی ہے‘‘ یا فرمایا گیا ہے کہ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دنیا پر غالب تو نیکی ہی کو ہونا ہے لیکن اس کے لیے ایک چھوٹی مگر بڑی کڑی شرط یہ ہے کہ فاتحین سچے اور پکے مومن ہوں۔
ہم بہت دور نہیں جاتے، دن رات ٹی وی پر دکھائے جانے والے ایسے ڈراموں، فلموں یا بچوں کے لیے بنائے گئے چھوٹے بڑے کھیل تماشوں پر نظر ڈالتے ہیں جن پر بہت ظالموں، طاقتوروں، مغروروں اور سر پھروں کو کمزوروں پر جبر و ستم کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ نیکی و بدی آپس میں ٹکرا جاتی ہے، ہر جانب ایک غدر پرپا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب بدی نیکی پر نہ صرف غالب آ جائے گی بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا کے رکھ دے گی لیکن وہی نیکی یا نیک لوگوں کا گروہ جو پہاڑ جیسی بدی کے مقابلے میں رائی کے دانے سے بھی چھوٹا دکھائی دے رہا ہوتا ہے، طاقت اور ظلم کے تمام بتوں کو پاش پاش کرکے یا تو بدی کو مکمل تباہ و برباد کر دیتا ہے یا پھر انہیں میدان سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
بے شک بچوں بڑوں کا کوئی ایک کھیل، ڈراما یا فلم کبھی بدی کو نیکی پر غالب ہوتے نہیں دکھاتا لیکن اس میں غور و فکر کی جو بات ہے وہ کم ہی لوگ نوٹ کرتے ہیں۔ بدی کا کام ہی دنیا بھر سے نیکی کو مٹا کر رکھ دینے کا سوا اور کچھ نہیں جبکہ یہ بات طے ہے کہ غالب نیکی ہی کو آنا ہے یہاں تک کہ بدی کا دنیا سے بہر حال خاتمہ ہو کر رہ جائے لیکن اس کے لیے جو شرط ہے وہ چھوٹی ہونے کے باوجود بہت کڑی ہے اور وہ شرط اوپر بیان کی جا چکی ہے یعنی ’’مومن‘‘ ہونا۔ ہم تمام ڈرامے، فلمیں یا کھیل تماشے دیکھتے جائیں تو ہمیں اس کے محاصل میں جو بات نظر آئے گی وہ یہی نظر آئے گی کہ ظلم و ستم کا بازار اس وقت تک گرم اور بظاہر غالب ہوتا نظر آئے گا جب تک وہ قوم جس پر ظلم کیا جا رہا ہو وہ جبر و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے گھبرا رہی ہو، جان دینے و لینے کا حوصلہ نہ پاتی ہو، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی مانند بکھری ہوئی ہو، اختلافات میں الجھ کر اپنوں ہی کے در پے آزار ہو اور ظالموں کے سامنے سجدوں میں پڑی ہوئی ہو لیکن جیسے ہی ان میں سے کچھ لوگ یہ عہد کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے میدان نہیں چھوڑنا، ڈٹے رہنا ہے، ہر ظلم و ستم برداشت کرنا ہے لیکن ہار نہیں ماننی ہے تو وہیں سے ظالموں کی بازی پلٹنا شروع ہو جاتی ہے، لوگ ایسے دلیروں کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں، تسبیح کے دانے عزم و ہمت کے دھاگے میں جمع ہو کر مالائیں بننے لگتے ہیں اور پھر انجامِ کار باطل کائی کی طرح چھٹ جاتا ہے۔ کوئی بھی آئی بلا کبھی خود سے نہیں ٹلا کرتی اور کبھی کوئی بڑی کامیابی کڑی آزمائشیں جھیلے حاصل نہیں ہوا کرتی۔ دراصل وہی چند لوگ جو حق کے لشکروں کے سردار ہوتے ہیں اللہ کے نزدیک ’’مومن‘‘ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان ہی لوگوں کو فتح و کامرانی عطا کرتا ہے۔
فلسطین میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں۔ جب کفر و شر دنیا کے 57 مسلم ممالک اور 2 ارب کے قریب مسلمانوں پر حکومت کر رہا ہو، جس قسم کا چاہے ستم ڈھا رہا ہو، جس جانب چاہے لے جا رہا ہو اور جو بات چاہے منوا رہا ہو تو پھر کوئی اس فریب میں مبتلا ہو کہ ساری دنیا کے مسلمان اور مسلمان ممالک ’’مومن‘‘ ہیں تو نعوذ باللہ اس سے بڑا بہتان اللہ پر لگایا ہی نہیں جا سکتا، لہٰذا یہ بات بہت ضروری ہو گئی ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان صرف دعاؤں سے کام چلانے کے بجائے عملاً اس جہاد کا حصہ بنیں، مومن بنیں، خوف اور ڈر کے حصاروں کو توڑ کر وہ کریں جو 313 نے کیا۔ ایسا جب بھی کریں گے، کامیابی پاؤں چومے گی اور اگر یقین نہ ہو تو پاکستان بننے کی تاریخ ہی کا مطالعہ کر لیں جو 75 سال سے زیادہ پرانی نہیں۔ وہی خستہ، بد حال، کمزور اور نحیف سے مسلمان تھے جو برطانیہ جیسی عظیم ترین سلطنت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے حتیٰ کہ ان کے قدم پورے بر صغیر سے اکھاڑ کر رکھ دیے تھے۔ اقبال نے کیا خوبصور بات کہی تھی کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی