اگلے انتخابات نہایت ’’شفاف‘‘ہوں گے

891

ملک کے بہی خواہوں اور حقیقی وارثوں کی سوچ اور پالیسیاں اتنی صاف شفاف ہیں کہ مستقبل کے سیاسی نقشے کے خدوِخال تقریباً ہر کس و ناکس کو بہت واضح نظر آرہے ہیں۔ سیاسی اور حکومتی حوالے سے آنے والے دنوں کو ’’حسین‘‘ بنانے کے لیے کردار سازی اور کردار کشی دونوں پر بلاتکلف بھرپور طریقے سے کام ہورہا ہے۔ جو عبوری حکومت صرف انتخابات کروانے کے لیے آئی ہے وہ تین ماہ کی مدت عبور کرکے انتخابات کی تیاری کے سوا سب کچھ کر رہی ہے۔ حتی کہ اس سے’’عادی بے گناہوں‘‘ کے گناہ معاف کروانے کا نیک کام بھی لیا جا رہا ہے۔ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر سابق ’’خادم اعلیٰ‘‘ کے برادر اعلیٰ کو چوتھی بار اپنے قبیلے کی خدمت کا موقع دے کر خدا ترس ’’گراں‘‘ حکومت ‘‘اوپر والے‘‘ کی منشا کے مطابق اپنی جنت پکی کرنے کی سعی کر رہی ہے۔

وطن عزیز میں روز مرہ حالات و واقعات کی ڈگر یہ تو نہیں بتا رہی کہ انتخابات کب ہوں گے لیکن یہ ضرور بتا رہی ہے کہ اگلے انتخابات (اگر ہوئے اور جب بھی ہوئے تو) ’’شفاف‘‘ تو ہوں گے ہی ہوں گے، ساتھ ساتھ اہل حل وعقد کے پیمانوں کے عین مطابق مکمل ’’منصفانہ اور آزادانہ‘‘ بھی ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ ذمے داران کے ہوتے ہوئے تو کامل یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پورے ملک کے انتخابات ویسے ہی آزادانہ، منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف ہوں گے جیسے کراچی کے بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ کراچی کے تجربے سے کوئی اور سیکھے نہ سیکھے الیکشن کمیشن اپنے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

آنے والے متوقع انتخابات کو اعلیٰ صفات سے متصف کرنے کے لیے جس ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کی ضرورت ہے اس کے مطابق گراونڈ کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ ’’اطمینان‘‘ کی بات یہ ہے کہ گراونڈ کو حسب منشا تیار کرنے والے ماہرین کو کسی تنقید یا شور شرابے کی قطعی کوئی فکر ہے، نہ پریشانی اور نہ کوئی ڈر! یہ جو کچھ کھلاڑی لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور مچا رہے ہیں وہ اس سے دو نیک مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ جن حلقوں میں وہ ہاریں گے ان میں الیکشن کے بعد ان کے پاس دھاندلی کا واویلا کرنے اور سودے بازی کی گنجائش موجود رہے گی۔ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ کھلاڑی یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو لیول پلیئنگ فیلڈ ان کو سندھ بھر میں اور خاص طور پر سندھ کے دارالحکومت کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دی گئی تھی وہی ان کو قومی اور صوبائی انتخابات میں بھی مہیا کی جائے۔

ووٹ، ووٹر یا مینڈیٹ کی توہین کا معاملہ تو پتا نہیں، لیکن یہ ضرور ذہن میں رہے کہ ہمارے قابل صد احترام الیکشن کمیشن کو ’’اپنی توہین‘‘ بالکل پسند نہیں ہے۔ اس لیے اس ’’مکدس‘‘ ادارے اور اس کے ہر ذمے دار اور کارکن کو ایماندار فرض شناس اور غیرجانبدار سمجھنا ہم اہل وطن کی اخلاقی اور انتخابی ذمے داری ہے۔ الیکشن کے نتائج بناتے یا بتاتے ہوئے کسی ’’ضرورت‘‘ کے تحت اگر آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) بیٹھ جائے تو عوام اس کے پیچھے حکومت نہیں ’’حکمت‘‘ تلاش کریں۔۔۔ ذہنی سکون ملے گا۔ اس یقین کے ساتھ کہ حالات اور الیکشن انتظامیہ یہی رہے تو آنے والے انتخابات 2018 اور کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات سے بھی زیادہ ’’شفاف‘‘ ہوں گے۔ ایک جمہوریت پسند ذمے دار شہری کی حیثیت سے ہمیں ملک کا نظام ’’چلانے والے‘‘ اپنے تمام اداروں کی ہر ادا کی تحسین کرنی چاہیے تاکہ ادارے یکسوئی کے ساتھ ’’اپنے فرائض‘‘ انجام دے سکیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دبئی بیسڈ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لباس پر نیب کو کرپشن کے گند کا کوئی ایک بھی داغ دھبا ’’نظر نہیں آیا‘‘۔ اس لیے ان کو ’’بری‘‘ کردیا گیا ہے۔ لندن بیسڈ مرد بیمار بہت ہمت کرکے اپنی باری لینے اپنے ’’وطن مالوف‘‘ سے نکل کر سعودیہ دبئی گھومتا گھماتا ’’وطن مرغوب‘‘ پہنچ گیا ہے۔ قوی امید ہے کہ دوچار دن میں اس خاندانی ’’شریف‘‘ مجرم کا دامن بھی صاف شفاف ہوجائے گا اور اس کی ’’خاندانی لمیٹڈ کمپنی‘‘ کو ’’خدمت‘‘ کا ایک موقع اور دیا جائے گا۔ زرداری کمپنی کو اس بات کی کوئی پریشانی ہی نہیں کہ اس کے دامن پر کن کن کرتوتوں کے کیسے کیسے داغ دھبے لگے ہیں۔ اس کے دامن پر دھبے لگتے رہتے ہیں اور ڈرائی کلین ہوتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز کی لانڈری یہ فرض معمول کے مطابق ادا کرتی رہتی ہے۔ آج تک اس پر اور اس کی کمپنی کے کسی کارکن پر لگے کسی ’’دھبے‘‘ نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔

باقی رہا نیازی اینڈ کمپنی، تو فی الحال اس کی ’’دھلائی‘‘ جاری ہے۔ کچھ وقت لگے گا لیکن قوی امید ہے کہ اس کے لباس کے ’’ضدی داغ‘‘ حافظ یا صوفی کے خصوصی ڈٹرجنٹ سے جلد اتر جائیں گے اور وہ بھی صاف دامن کردیا جائے گا۔ر ہے عوام تو ان کو گند میں رہنے کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ اب وہ گند ختم کرنے کے بجائے ہر پانچ سال بعد ووٹ کے ذریعے صرف گندے لباس یا گند کی ٹوکری بدلتے ہیں۔ دھوبی خود گندی وردی پہن کر آجائے یا کسی اورگندے شلوار قمیص کو لے آئے، زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ عوام گند ختم کرنے کی کوشش کے بجائے گند کی تین ٹوکریوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے مجاز ہوتے ہیں… سو عوام ہنسی خوشی ہر پانچ چھے سال بعد پورے جوش اور ولولے کے ساتھ یہی کرتے ہیں اور شاید آئندہ کئی سال روتے بھی رہیں اور ساتھ ساتھ یہی کرتے بھی رہیں روتے ہوئے عوام تو اسی بات پر ناچ لیتے ہیں کہ ان کو ’’بظاہر‘‘ اپنی پسند کی ٹوکری کے انتخاب کے لیے اچھلنے کودنے گانے بجانے کا موقع مل جاتا ہے۔